چوری کی یابغیرکاغذات کی موٹرسائیکل خریدنا



سوال :- اگر کسی مارکیٹ میں سینکڑوں موٹر سائیکلیں  فروخت ہوتی ہوں، ان میں سے بعض کے کاغذات نہیں ہوتے ہیں کہیں جل جانے کی وجہ سے یا کہیں گم ہوجانے کی وجہ سے اور بعضپر شبہ ہوتا ہے کہ یہ چوری کی ہیں یا گمان غالب  ہوکہ یہ مال مسروقہ (چوری )ہے،اگر چہ خریدنے والے والے نے ان موٹر سائیکلوں کو کسی کے ہاتھوں چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہو ،لہٰذا ان موٹر سائیکلز کی خریدو فروخت کرنا ،ان پر سواری کرنا یا ان کے پرزوں کو اپنے استعمال میں لانا شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں ؟(محمد قاسم کبزئی ،کوئٹہ)
 
جواب:۔جو موٹرسائیکل چوری کی ہو یا جس کے بارے میں غالب گمان ہو کہ وہ چوری کی ہے ،اس کی خریدوفروخت یا اسےاستعمال کرنا یااس کے پرزوں کو کام میں لاناناجائز  ہے۔چوری کامال جتنے ہاتھوں میںچلاجائے وہ حرام ہی رہتا ہے اوراصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرااس کامالک نہیں بنتا۔البتہ کوئی مال چوری کا نہ ہومگر اس کے کاغذات نہ بھی ہوں مثلاچھن یا جل یا گم ہوگئے ہوں تو اس کی خریدوفروخت جائز ہےاورخریدارخریداری کے بعدمالک بن جائے گا تاہم ایک تویہ قلبی اطمینان ضروری کرلیناچاہیے کہ موٹرسائیکل مال مسروقہ نہیں دوسرے یہ کہ اس قسم کے  بغیر کاغذات کے مال کے لیے جو متعلقہ قوانین ہیں ان کی  رعایت ضرور کرلینی چاہیے۔ ردالمحتار علی الدر، باب البیع الفاسد ، مطلب الحرمۃ تتعدد: 5/98)