مسجد کے فنڈ سے مسجد کے فائدہ کے لیے کاروبار کرنا
سوال :- ایک عالم کے درس قرآن میں سنا کہ یتیم بچہ کا مال اس پر خرچ کرسکتے ہیں یا اس کے لیے اس کاسرپرست اس مال کو اپنی نگرانی میں کسی کاروبار میں لگادے تو اس کی گنجائش ہے۔اس پر ہماری کمیٹی کے کچھ افراد کے دل میں آیا کہ مسجد کی آمدنی اور حاصل ہونے فنڈکو اگر کاروبار میں لگایا جائے تو مسجد کی آمدنی بڑھائی جاسکتی ہے اس سے ہماری مساجد مالی اعتبارسے مستحکم ہوسکتی ہیں ، کیا ایسا کرنے میں شرعی لحاظ سے کوئی مما نعت ہے ؟ نیز اگر کوئی شخص یہ ضمانت دے کہ ہر صورت میں نفع ہی ہوگا تو کیا پھر فنڈ کوتجارت میں لگاسکتے ہیں ۔ ( وجاہت غوری )
جواب :-مسجد کا فنڈ کمیٹی کے پاس امانت ہے اورامانت کو تجارت میں لگانا خیانت ہے۔ایسی تجارت جس میں نفع کی ضمانت ہو ازروئے شرع جائز نہیں ہوسکتی ،حلال تجارت میں تو نفع ونقصان دونوں کا امکان ہوتا ہے اور نقصان کے امکان کے پیش نظر وقف رقم کو تجارت میں لگانا جائز نہیں۔بہرحالوقف رقمکو واقف کے منشاء کے مطابق استعمال کرنا ضروری ہے ۔واقف کا منشاء رقم کوتجارت میں لگا کر بڑھا نا نہیں ہے بلکہ مسجد میں استعمال کرکے ثواب حاصل کرنا ہے۔اگر واقف کامقصد تجارت ہوتا تو اسے چلتے ہوئے کاروبار سے رقم نکال کر مسجد میں دینے کی ضرورت نہ تھی وہ خود ہی اچھے طریقے سے رقم کو بڑھا سکتا تھا۔( الفتاویٰ الہندیہ ، کتاب الوقف : 2/463 ، البحر الرائق5/401 ، فتاوی ٰ شامی 4/457 )