زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ
سوال:۔میرے تین بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں ۔کافی جائیداد اوراچھا کاروبار ہے۔دوبیٹے شادی شدہ ہیں اور میرے ساتھ ہی رہائش پذیر ہیں۔شادی شدہ بچے میرے ساتھ کاروبار میں حصہ لیتےہیں اور اس کے بدلے میں ان کےاور ان کے بچوں کی ضروریات پوری کرتا ہوں ،کھانے پینے،غم وخوشی اور بیماری وغیرہ سب کا خرچ میں ہی اداکرتا ہوں،اس کے علاوہ میں ایک معقول رقم ہر ایک بیتے کو ہر ماہ الگ سے بھی دیتا ہوں۔جو پریشانی ہے وہ یہ ہےکہ بیٹوں کے آپس کے تعلقات بھائیوں جیسے نہیں ہیں اورمجھے خدشہ ہے کہ میرے بعدان میں اختلافا ت ہوں گے۔ایک بیٹا بہت سختی سے اپنے حصے کا مطالبہ کرتا ہے اورکہتا ہے کہ میرے بعداسے ملنے والاحصہ ابھی سے اسے دے دیا جائے۔ان حالات میں میرے لیے کیا حکم ہے،کیا میں اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کردوں؟زبیرالدین منصوری،کراچی
جواب:۔جب تک آپ حیات ہیں اپنے تمام ما ل کے خود مالک ہیں اورکسی کو آپ سے مطالبہ کا حق نہیں ۔جو بیٹا اپنے حصہ وراثت کا تقاضا کررہا ہے اس کا مطالبہ بھی درست نہیں کیونکہ ابھی آپ حیات ہیں اور زندوں کی میراث نہیں تقسیم ہواکرتی ۔اس کایہ کہنا بھی لائق توجہ نہیں کہ اسے بعد میں ملنے والاحصہ ابھی سے دے دیا جائے ۔کون یقین سے کہہ سکتا ہے کہ بیٹا باپ کاوارث ہوگا ؟ممکن ہے کہ باپ اپنے بیٹے کا وارث بن جائے ۔ دنیا میں آنے کی ترتیب تو مقرر ہے لیکن جانے کی کوئی ترتیب نہیں۔آپ کی یہ پدرانہ سوچ تو درست ہے کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد میں اختلافات اورجھگڑے نہ ہوں لیکن اگرآپ کے بعد وہ جھگڑتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی فعل ہوگا اوراس وجہ سے آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوگی ۔اولاد کے بارے میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے اس کی بنا پر مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم نہ کریں بلکہ اپنی حیات میں مال پراپنا قبضہ اور کنٹرول برقرار رکھیں تاکہ اولاد فرماں بردار رہے ۔ اس کے باوجود اگرآپ تقسیم چاہتے ہیں تو مالک ہونے کی حیثیت سے اس کا حق رکھتے ہیں ۔اگر آپ تقسیم کریں گے تویہ تقسیم چونکہ میراث کی تقسیم نہیں بلکہ آپ کی طرف سے اولاد کو عطیہ ہوگا اس لیے عطیہ کے احکام اس پر لاگو ہوں گے۔عطیہ کا حکم یہ ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابربرابر دیا جائے البتہ اگر کوئی معقول وجہ ہو مثلا اولاد میں سے کوئی زیادہ فرماں دار ہو یا اس کی ضرورت زیادہ ہو یا وہ معذور ہو تو اسے دوسروں کی نسبت زیادہ دینا بھی جائز ہے۔جو کچھ کسی کو دیں اس کا حصہ علیحدہ کرکے اس کے حوالے کردیں ،اگر صرف تقسیم کی اور ہر ایک کا حصہ الگ کرکے اس کے قبضہ میں نہ دیا گیا تو عطیہ مکمل نہ ہوگا اورنتیجے میں اولاد مالک نہیں بنے گی اور آپ کی ملکیت برقرار رہے گی۔تقسیم جائیدادسے پہلے چندباتوں کاخیال رکھنا ضروری ہے ۔ایک یہ کہ تقسیم کی وجہ سے کوئی وارث اپنے حصہ وراثت سے محروم نہ ہو لہذا اگر آپ کی زوجہ حیات ہے تو اسے کم ازکم آٹھواں حصہ دے دینا چاہیے ۔دوسری یہ کہ لوگ اپنی ساری جائیداد اولاد کے نام کردیتے ہیں اور پھر اولاد کے محتاج ہوتے ہیں اورمعمولی ضرورت کے لیے بھی اولاد کے سامنے ہاتھ پھیلانے پرمجبور ہوتے ہیں،اس برائی سے بچنے کےلیے لازم ہے کہ آپ پورامال تقسیم نہ کریں بلکہ اپنی متوقع ضروریات کے لیے ایک معقول مقدار پہلے سے اپنے لیےعلیحدہ کرلیں اوربقیہ تقسیم کریں۔تیسری یہ کہ اگر اولاد کو ملنے والاحصہ معقول مقدار میں ہے تو تقسیم سے پہلے اپنے لیے ذخیرہ آخرت کے طور کچھ راہ خدا میں بھی خرچ کردیں یا کم ازکم اس کی وصیت کرجائیں۔