فاسد معاہدے کے ذریعے خریدی ہوئی گاڑی آگے فروخت کرنا



سوال:۔میں دبئی میں مقیم ہو ں اور ٹرانسپورٹ کمپنی میں بطو ر مارکیٹنگ منیجراور ساتھ میں اکاؤنٹ کے کام میں بھی مدد کررہا ہو ں یہا ں پر ٹرانسپورٹ کمپنی ایک ادارے سے گاڑی خریدتی ہے قسطو ں پر،اورپھرٹرانسپور ٹ کمپنیاں عام افراد (مراد جیسے پاکستانی ،انڈین ، بنگلادیشی حضرات)کو وہی گاڑی قسطو ں پر دیتے ہیں قسطو ں کے دوران یہ گاڑی اس ادارے کی ملکیت ہو تی ہیں اور قسط ختم ہونے کے بعد ٹرانسپورٹ کمپنی کے نام ہوتی ہے کیو نکہ یہا ں کمرشل گاڑیا ں صرف کمپنی خرید سکتی ہیں۔ یہ سودا صرف زبانی کلام پر ہوتا ہے قانو نی طور پر وہ گاڑی کمپنی کی ملکیت ہو تی ہے۔ اورساتھ میں کمپنی خریدنے والے شخص سے سہولت فراہم کرنےکے عو ض ہر مہینے ۳۰۰ درہم بطورسہو لت یاکرایہ لیتی ہیں ،جس سے کمپنی اپنے اخراجات اور اسٹاف کی تنخواہ دیتی ہے اور ہر شخص جو گاڑی کمپنی سے خریدتا ہے وہ ہر مہینے طے شدہ قسط کمپنی میں جمع کرتا ہے کمپنی اپنے اکاونٹ میں جمع کرتی ہے ، پھرادارہ طریقے کے مطابق اس کمپنی کے اکاونٹ سے کٹو تی کرتی ہیں۔اوراگر اس دوران قسطوں میں اگر کو ئی قسط شارٹ ہو جا ۓ تووہ ادارہ ۵۰۰ درہم قسط نہ دینے کا جرمانہ لگاتی ہے۔لیکن یہا ں پر ہر ایک کمپنی لازمی طور پر بینک اکاونٹ میں اتنی رقم رکھتی ہیں ،کہ جرمانے کی نو بت ہی نہیں آتی ۔ لیکن اگر گاڑی خریدنے والا شخص کسی مہینے کی قسط شارٹ کرے،تو کمپنی اپنے اکاونٹ سے ادارے کو رقم ادا کردیتی ہے،اور اس شخص سےکمپنی ۵۰۰ روپے جرمانہ وصول کرتی ہیں۔ اس کمپنی میں میری ذمہ داری یہ ہے کہ کمپنی کی گا ڑیوں کےلیے کا م ڈھونڈتا ہو ں جو صبح شام دوسرے کمپنی کے اسٹاف کو پک اینڈ ڈراپ کی سہو لت فراہم کرتی ہیں اور اس کے عوض ہم ان سے مثا ل کے طور پر ۸۰۰۰ رقم وصول کرتے ہیں اگے گاڑی والےکو ہم ۷۵۰۰ روپے ادا کرتے ہیں اس میں سے کمپنی مجھے کمیشن دیتی ہے اور بقیہ رقم کمپنی رکھتی ہے ۔

سوال نمبر۱:  کیا اس طرح سے عام افراد کو کمپنی سے یہ گاڑیاں خریدنا جا ئز ہے؟

سوال نمبر ۲: کیا کمپنی جو مہینے کے ۳۰۰روپے کرایا یا سہو لت کے عوض لیتی ہے جائز ہے؟

سوال نمبر۳:  کیا کمپنی جو قسط شارٹ ہونے کی صورت میں ۵۰۰ کا جرمانہ لیتی ہے جائز  ہے؟

سوال نمبر۴: کیا اس طرح کی ٹرانسپورٹ کمپنی میں نو کری کرنا جائز ہے؟ 

برا ٔے مہربانی فرماکر جلد سے جلد جواب ارسال کرے کیو نکہ یہاں پر بہت سارے ہمارے پاکستانی بھائی اس میں مبتلا ہیں اور میں بھی اس نو کری کی وجہ سے بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوں۔

جواب1۔آپ کی کمپنی فاسدمعاہدہ کےذریعےاس ادارے سے گاڑی خریدتی ہے اور فاسد معاہدہ کےذریعے آگے بیچتی ہے اس لیےکمپنی کاادارے سے گاڑی خریدنااورعام لوگوں کاکمپنی سےخریدنا دونوں ہی ناجائز ہیں۔

2۔جو شخص کمپنی سے گاڑی خریدتا ہے وہ اپنی گاڑی استعمال کرتا ہے تو اپنے مال کے استعمال پر کمپنی کو کرایہ کیوں ادا کرے اور سہولت کے بدلے  کمپنی قیمت وصول کرتی ہے  تو الگ سے تین  سو روپے گاہگ سے کیوں وصول کرتی ہے۔الغرض کرایہ یا سہولت  کے نام پر قیمت کے علاوہ کچھ زائد وصول کرنا جائز نہیں ۔درست صورت یہ ہوسکتی ہے کمپنی ان تین سو روپوں کو گاڑی کی قیمت میں شامل کرکے قیمت بڑھادے یعنی کم پر خریدے اور زیادہ پر بیچ دے ،الگ سے کوئی رقم وصول نہ کرے   اور جرمانہ کی شرط بھی ختم کرے ۔اگر ان دونوں شرطوں کے ہوتے ہوئے کوئی شخص کمپنی سے گاڑی خریدتا ہے تو وہ گناہگار ہوتا ہے ،اس کے خریدے ہوئے مال میں بھی خباثت آتی ہے اور اس پر واجب ہوتا ہے کہ وہ فورا اس معاہدہ کو ختم کرے بلکہ اگر وہ ختم نہ کرے اور اسلامی عدالت کے علم آجائے تو وہ قوت کے زور پر اس ناجائز معاملے کوختم کردے۔

3۔ناجائز ہے اور باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھانا ہے۔

4۔آپ کا براہ راست کام کمپنی کے لیے کام ڈھونڈنا ہے اس لیے آپ کی اجرت جائز ہے  البتہ ناجائز حساب وکتاب میں آپ کسی کی مدد نہ کیا کریں۔