کاروبار کی ایک نا جائز صورت
سوال :- میں ایک چھوٹے پیمانہ پر کاروبار کرنے والا آدمی ہوں میں فیکٹریوں سے گارمنٹ کے سوٹ لاتا ہوں اور مارکیٹ میں معمولی نفع کے ساتھ فروخت کرتا ہوں ہر سوٹ ہر مجھےدس ، بیس روپے بچ جاتے ہیں دوکان دار آج کل زیادہ تر مال ادھار پر خریدتے ہیں اور بیچ کر پیسے دیتے ہیں اس سے پیسہ دوکان داروں کے پاس رک جاتا ہے اور میرےلیے نیا مال لانے میں دشواری ہوتی ہے ، میرے ایک دوست نے کہا کہ میں آپ کو پیسے دے دیتا ہوں مگرآپ مجھے ہر سوٹ پر پانچ روپے کے حساب سے نفع دیں گے کیا یہ صور ت شرعاً جائز ہے اگر جائز نہیں تو میں اس کے ساتھ طرح معاہدہ کروں ۔( عبدالمالک گدی)
جواب :-جو صورت آپ نے ذکر کی یہ تو ناجائز ہےکیونکہ اس میں نفع کی ایک خاص مقدار کو سرمایہ لگانے والے شخص نے اپنے لیے مختص کیا ہے ، البتہ اگر معاہد ہ اس طرح کیا جائے کہ آپ ان کے پیسوں سے مال خرید کر بیچتے رہیں جتنا نفع حاصل ہو اس کو فیصدی تناسب سے تقسیم کرلیں مثلا ًپچاس فیصد آپ کا اور پچاس فیصد پیسہ لگانے والے کا ، یا ساٹھ فیصد ایک فریق کا اور چالیس فیصد دوسرے فریق کا اس طرح جو بھی آپس میں باہمی رضامندی سے طے ہوجائے شرعا جائزہے ۔دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ آپ کا دوست نقدپر مال خریدلے اور مال پر قبضہ کرنے کے بعدآپ کو نفع کے ساتھ ادھارپر بیچ دے۔