تین طلاق ایک ساتھ واقع ہونا قرآن وسنت سے ثابت ہے



جناب مولاناڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر ،     

السلام علیکم ! مورخہ 25 مارچ بروز جمہ کے جنگ اقرا ء ایڈیشن پر آپ کا کالم پڑھا۔ جس میں آپ نے طلاق کے بارے میں ایک شخص کو فتوی دیا کہ یک لخت تین مرتبہ کہنے سے اس کی بہن کو طلاق واقع ہو گئی ہے۔  
اس بارے میں عرض یہ ہے کہ آپ کا یہ فتوی قرآن کریم کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر: 228 میں واضح حکم ہے کہ طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں اور پھر کہا کہ خاوند اس مدت میں بیوی کو واپس لینے کے حقدارہیں۔ پھر سورہ نسا کی آیت نمبر35 میں بتایا گیا ہے کہ اگر خاوند اور بیوی میں ناچاکی ہو جائے تو دونوں طرف سے ایک بورڈ بیٹھے گا جو کہ صلح کی کوشش کرے گا۔ دیگر مقامات پر بھی احکامات واضح ہیں۔اس سلسلہ میں آپ نے جو حوالہ جات دئیے ہیں وہ دین میں حجت قرار نہیں پا سکتے۔دین میں حجت صرف اللہ کی نازل کردہ کتاب ہی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ اس نے فرمایا۔ اور جو لوگ اللہ کی نازل کردہ وحی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ ظالم ہیں اور فاسق ہیں۔ سورہ المائدہ آیت نمبر 44,45,47 آپ کا کالم لاکھوں لوگ پڑھتے ہیں۔ اور من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ اگر آپ کی کسی غلطی کی وجہ سے کچھ لوگ بھی غلط کام کر بیٹھے تو اس کے گناہ میں آپ برابر کے شریک ہوں گے۔ اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ اپنی رائے پر نظر ثانی کیجئے۔آپ کا خیر خواہ  حیدر

جواب:- تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں ،خواہ اکھٹی دی جائیں یا الگ الگ ،یہی  ائمہ اربعہ سمیت جمہور امت کا موقف ہے،امام بخاری ؒ بھی اسی کے قائل ہیں  اور حرمین شریفین میں بھی اسی پر عمل ہے ۔

ایک ہی  مجلس کی تین طلاقوں کے تین ہونے پر سورہ بقرہ کی آیتنمبر 229-230 بطور نص ہے  ( جس کا حوالہ آنجناب نے بھی دیاہے  )اس آیت کا مفہوم آپ  جناب نے شاید یہ سمجھا ہے کہ  جتنی مرتبہ مرضی ہو ،طلاق  دیں تو  وہ دو سے زیادہ نہیں ہوتیں،جس پر یہ مفروضہ قائم کیا کہ اگر کوئی  شخص تین طلاق ایک ساتھ دے تو اس سے تین طلاقیں واقع نہیں ہوتیں جس سے نکاح ختم ہوجائے  بلکہ اسے رجوع کا حق رہے گا ۔حالانکہ اس آیت کی تفسیر میں جو کچھ مفسر ین نے لکھا ہے  وہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔

علامہ  ابن کثیر  نے اس آیت کے ذیل لکھا ہے کہ : "  اسلام سے پہلے دستور تھا کہ خاوند جتنی چاہے طلاقیں دیتا چلا جائے  اور عدت میں رجوع کرتا جائے  ۔اس سے عورت کی جان شکنجے میں تھی کہ طلاق دی اور عدت گزرنے کے قریب آئی تو رجوع کرلیا  پھر طلاق دے دی  ،اسی طرح  عورتوں کوتنگ کرتے رہتے تھے پس اسلام نے حد بندی کردی کہ اس طرح کی طلاق( یعنی جس کے بعد رجوع کا حق ہو )  دو ہی دے سکتے ہیں ، تیسری طلاق کے بعد  لوٹانے کا کوئی حق نہیں "۔ (اب اس میں تین طلاق دینے سے تین کے بجائے ایک یا دو ہونے کا فلسفہ کہیں نہیں ہے )

تفسیر ابن عباس   میں  ان آیات کے تحت ہے کہ :" وہ طلاق جس کے بعد رجوع ہوسکتا ہے  دو  مرتبہ  ہے  ۔

(تفسیر ابن  کثیر  سورۃ البقرۃ   الآیۃ 229 : ج : ص: 610۔تفسیر ابن عباس 1/39۔)

 تفسیرروح المعانی  میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ  سنت یہی ہے کہ طلاق کو متفرق  طور پر تین مجالس میں  دیا جائے  لیکن اگر  تین ایک ساتھ دی جائیں تو بدعت ہوگی البتہ تینوں  طلاق واقع ہوجائیں  گی۔

قاضی ابوبکر جصاص رحمہ اللہ نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ قرآن وسنت اور اجماع سلف  تین طلاق ایک ساتھ واقع ہونے پر متفق ہیں ( گو کہ ایسا کرنے والا گناہ گار ہے )۔

ان  سب کا حاصل یہ ہے کہ دو طلاق کے بعد رجعت کا حق رہتا ہے ، تیسری کے بعد حق رجعت ختم ہوکربیوی  مغلظہ ہوجاتی ہے ، اس میں ایک  مجلس دو مجلس تین مجلس کی کوئی قید نہیں ، بلکہ سب کو شامل ہے ۔

احادیث کی کتابوں میں سب سے مقبول ذخیرہ صحیح البخاری کا ہے چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں اس مسئلہ  پر مستقل ایک باب "باب من اجاز طلاق الثلاث " کے نام سے منعقد  کیا  ہے جس میں انہوں نے تین طلاق کا تین ہونا ثابت کیا ہے ۔اس کے علاوہ " باب مَنْ قَالَ لاِمْرَأَتِه أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ "  میں تین طلاق کا تین واقع ہونا بیان  کیا  ہے ۔

مسلم شریف 1/489  میں حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ   کے متعلق روایت موجود ہے  کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تین طلاقیں دیں ،ابوداؤد شریف  میں اس کے ساتھ یہ بھی اضافہ موجود ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں نافذ کیا  اور تین ہی قرار دیا ۔ اس روایت کے راویوں   کے متعلق علامہ شوکانی نے  نیل الاوطار: 7/66میں لکھا ہے کہ   اس کے رجال صحیحین کے رجال ہیں  ۔

امام نسائی رحمہ اللہ نے سنن نسائی میں:2/  99  پر"الثلاثۃ المجموعۃ   وما فیہ التغلیظ" کے نام سے عنوان قائم کرکے اس میں ایک حدیث لائی ہے کہ آپ ﷺ کو اطلاع دی گئی  کہ ایک شخص نے ایک ساتھ تین طلاق دے دیں تو آپ ﷺ غضبناک ہوگئے ( کیونکہ تین طلاق یک دم دینا بہت قبیح و مذموم ہے ) مگر یہ نہیں فرمایا کہ تین واقع نہیں ہوئیں یا  تمہیں رجوع کا حق حاصل ہے

یہ چند احادیث بطور نمونہ پیش کردی گئیں ہیں ورنہ   ذخیرہ حدیث میں  بہت سی روایات اس پر موجود ہیں ۔

یہ مسئلہ قرآن وسنت سے ثابت ہے ،اور ائمہ اربعہ کا س پر اجماع ہے  کہ تین طلاق ایک ساتھ دینے سے تین ہی  واقع ہوتی ہیں البتہ ایسا کرنے والا گناہ گار ہوگا  ۔علامہ عینی نے عمدۃ القاری:  20/233، میں اجماع کو نقل کیا ہے  اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے  فتح الباری شرح صحیح البخاری 9/453،  میں  لکھا ہے کہ  ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تین واقع نہ ہونے کا  قول صرف بعض شیعہ اور اہل ظواہر کا ہےیعنی اس کے علاوہ تمام اہل سنت والجماعت اس پر متفق ہیں  کہ تین طلاق  ایک ساتھ دینے سے تین ہی واقع ہوں گی ۔