قرآن کریم کی تلاوت میں وقف و ابتداء کا حکم



سوال:۔ قرآن کریم میں ایک مقام پر فرمایا گیا، قرآن میں کسی قسم کی کجی نہیں، نہ الفاظ میں اور نہ ہی معانی میں اور ہر چیز کھول کھول کر، صاف صاف انداز میں بیان کر دی گئی۔ پھرکیا قرآن کی تلاوت ایسے طریقے سے کی جا سکتی ہے جس سے معانی الٹ جائیں یا مبہم ہو جائیں؟ مثلاً ایک امام صاحب نماز میں سورۃ الفاتحہ کے بعد تلاوت شروع کرتے ہیں’’ یَقُولُ ٰیلَیتَنی قَدَّمتُ لِحَیٰتِی‘‘ سے یا پھر کبھی وہ قرأت کا آغاز کرتے ہیں ’’ثُمّ لاَ یَمُوتُ فیھاَ وَلَا یحییٰ"۔سے ان آیات سے واضح نہیں ہوتا کہ کس شخص یا کس جگہ کی بات ہو رہی ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے سورۃ العصر میں تیسری آیت سے تلاوت شروع کر دی جائے۔رہنمائی فرمائیے کہ ایسی قرأت کرنا مناسب ہے یا نہیں؟ کیا دین امام صاحب کی اصلاح کرنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟(محمد عمران،راول پنڈی)

جواب :-قرآن کریم بے شک ایسی  کتاب ہے جس میں کوئی کجی نہیں لیکن  اس  سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو جس طرح جہاں سے  چاہے  پڑھا جائے تو اس کے معنیٰ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ۔قرآن کریم کی آیات اور الفاظ کے درمیان گہرا ربط اور جوڑ ہے نیز قرآ ن کریم کی آیات  توقیفی ہیں ان پر وقف کرنا  بھی اتباع قرآن میں شامل ہے نیز بعض جگہ وقف  کرناضروری  بھی ہوتاہے اگر وقف نہ کیا جائے تو معنیٰ فاسد ہوجائیں  گے ۔اس طرح ابتدا میں بھی مناسب  جگہ کا خیال کرنا لازم ہے ورنہ  معنی میں  خلل واقع ہوگا  یا مفہوم بدل جائے گا۔

الاتقان فی علوم القرآن میں علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے   قرآن کریم کی آیت " وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا"کی تشریح میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمان  نقل ہے کہ ترتیل کا مطلب قرآن کے حروف کو تجوید سے ادا کرنا اور وقف کے مقامات کو پہچاننا۔

خاتمۃ المحققین علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں  کہ : اگر ابتدا ایسی جگہ سے ہو جس سے معنیٰ میں خرابی لازم آئے  جیسے شرط کو چھوڑ کر جزاء سے  ابتداء کرے یا موصوف کو چھوڑ کر صفت سے  ابتداء کرے تو ایسا کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوگی کیونکہ  ایک مسلماناس فاسد  معنیٰ کا ارادہ نہیں رکھتا  البتہ اگر کوئی شخص اعتقاد کے ساتھ  قصداً اس طرح پڑھے تو نماز فاسد ہوجائے گی ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ :ہم نے ایک زمانہ قرآن کے حلال وحرام کو جاننے اور یہ سیکھنے میں لگایا کہ  قرآن کریم میں کن کن جگہوں پر وقف کریں گے ۔

لہٰذا امام صاحب کو چاہیے کہ قرآن کریم میں وقف اور ابتداء کے مقامات کی رعایت کرکے تلاوت کرے اور اس سلسلہ میں ادب و اخلاق کے ساتھ  ان کو اس طرف متوجہ کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں کہ وہ قرآن کریم کے مقامات وقف و ابتداء  کو سیکھ لیں  ۔

(رد المحتار علی الدر، قبیل مطلب اذا قرء تعالیٰ جد بدون الف لاتفسد :1/467  ۔  الاتقان فی علوم القرآن  ، فصل فی معرفۃ الوقوف و الابتداء :1/83۔ کفایت المفتی ، کتاب التفسیر و التجوید  : 2/128)