قرآن کریم کے شہید اوراق کودریا یا ندی میں بہانا



سوال :۔ قرآن کریم جب اس قدر بوسیدہ ہوجائے کہ پڑھا نہ جاسکےتو پانی میں یعنی دریا ،ندی میں بہادینا شرعاً کیسا ہے ؟ کیا ایسا کرنے سے بے حرمتی ہوگی ؟  (عثمان گارڈن کراچی )

جواب:۔اگرقرآن کریم کے اوراق پرانے ہوجائیں تو اس کی جلد بندی کرکے ، قابل استعمال بنانے کی حتی الامکان کوشش کی جائے، یہ نیکی کا کام ہے، جس پر اللہ تعالی سے اجر کی امید ہے۔

البتہ اگر مصحف اس قدر پرانا ہوجائے کہ اس سے فائدہ حاصل کرنا ممکن نہ رہے تو اسے تلف کیا جائے گا، تلف کرنے کی کیفیت اور صورت میں بہتر یہ ہے کہ ان اوراق کو گندگی سے دور کسی محفوظ مقام میں دفن کیا جائے، اگر گہرے پانی میں ڈال دیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔

پانی میں بہانے کی صورت میں اس بات کا دھیان رہے کہ یہ اوراق زیادہ گہرے پانی میں بہائے جائیں، اس کے لیے بہتر ہے کہ بحری جہازوں کے ذریعہ انہیں گہرے سمندر میں بہایا جائے، اسی طرح اگر دریا کے اس حصے میں یہ اوراق بہانا درست ہیں جو زیادہ گہرے ہیں، جن میں اوراق ڈالنے سے یہ اندیشہ نہیں کہ وہ کنارے پر آجائیں گے، البتہ دریا کے کم گہرے پانی میں اور ندی میں یہ اوراق بہانا جائز نہیں، کیوں کہ کم گہرے پانی میں ڈالنے کے بعد وہ کنارے پر آجائیں گے، جس سے ان کی تحقیر و توہین ہوگی۔

صاحب در مختار علامہ حصکفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’ قرآن کریم جب اس قدر بوسیدہ ہوجائے کہ پڑھا نہ جاسکے تو اسے مسلمان کی طرح دفن کیا جائے گا۔ ‘‘

          علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ حاشیہ میں لکھتے ہیں :

’’  اسے صاف کپڑے میں ڈال کر ، ایسی جگہ میں دفن کیا جائے جسے پیروں سے روندا نہ جاتا ہو،اس کے لیے لحد یعنی گڑھے کی جانب بل نما بنا کر اس مین اسے دفن کیا جائے، کیوں کہ اس کے بغیر دفن کرنے کی صورت میں قرآن کریم کے اوپر مٹی ڈالی جائے گی، جس میں ایک گنا تحقیر ہے، تاہم اگر اس گڑھے کے اوپر چھت نما بنا ئی جائے، جس سے مٹی اندر نہ جائے تو یہ اچھی صورت ہے، نیز فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کو دفن کرنے میں اس کی اہانت نہیں ، بلکہ اکرام ہے، تاکہ وہ بے اکرامی سے بچ سکے۔ ‘‘

          الدر المختار میں ہے :

’’   وہ کتابیں جن سے نفع حاصل نہیں کیا جاسکتا ہو ان سے اللہ تعالی ، فرشتوں اور رسولوں کے نام مٹا کر باقی کو جلا لیا جائے، ان کتابوں کو پانی میں اسی طرح ڈالنے میں کوئی حرج نہیں یا دفن کردیا جائے، یہ دفن کرنا  بہتر صورت ہے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام  کو دفن کیا جاتا ہے۔ ‘‘

          اس کے حاشیہ میں علامہ شامی لکھتے ہیں:

’’ قرآن کریم جب پرانا ہوجائے اور اس سے پڑھنا مشکل ہو تو اسے آگ میں نہیں جلائیں گے، امام محمد نے اسی جانب اشارہ کیا ہے، اسی قول کو ہم لیتے ہیں، اس کو دفن کرنا مکروہ نہیں ہے، مناسب ہے کہ اسے پاک کپڑے میں لپیٹا جائے۔‘‘

 ( الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الطهارة ۱/ ۱۷۷۔ رد المحتار، كتاب الطهارة ۱/ ۱۷۷۔الدر المختار، كتاب الحظر والإباحة ٦/۴۲۲ ۔رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة ٦/۴۲۲)