میراث ، وصیت اوروالد کے کاروبار میں شرکت وغیرہ



سوال :1-  اگر ایک شخص کی تین بیٹیا ں  اور ایک بیٹی ہو تو اس کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی ؟ 100 روپے کے حساب سے بتادیں ۔

2- مندرجہ بالا صورت میں ماں کے مرتے ہی سار ازیور چھوٹی بیٹی نے لے لیا  کہ وہ مجھے  دے  کر گئیں تھیں ( یعنی زندگی میں کہا تھا ) تو کیا یہ ٹھیک ہے  اس میں سے کسی اور کا  حصہ نہیں ہوگا ۔

3- اس طرح اگر باپ نے یہ وصیت کی ہو  کہ زندگی بھر اس  دوکان ،جو کہ والد کی ہے  ،اس کا کرایہ میری  بیٹیوں کو دیا جائے،کیا یہ کہنا وراثت میں شمار ہوگا ؟ اور اس میں کسی اور کا حصہ ہوگا یا نہیں  ؟

4-زندگی میں ہی اولاد کا والدین سے حق مانگنا کیسا ہے یا یوں کہنا کہ ہمارا    ورثہ دے دیں ۔

5- والدین نے اپنی  زندگی میں بیٹیوں کو خوب پڑھایا سکھایا اور ان کی شادیاں کیں بیٹا صرف میٹرک تک پڑھا کیونکہ اسے باپ کی دکان سنبھالنی تھی 18 سال سے وہ دکان پر کام کر تا رہا ہے اب بیٹیاں حق مانگ رہی ہیں  بیٹے نے ایک روپیہ بھی اپنے لیے جمع نہیں کیاجو کچھ کمایا والدین کے اکاؤنٹ میں ڈالتا رہا  اب وراثت میں اس بیٹے کی کی حیثیت ہوگی ۔ برائے مہربانی وضاحت فرمائیے ۔( سلیم خان  ،      ڈیرہ غازی خان )

جواب : 1-  کل مال کے پانچ حصے کرکے اس میں سے  دو حصے ایک بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہرایک بیٹی کو  یعنی سو روپے میں سے چالیس  روپے بیٹے کو اور بیس ، بیس  روپے ہر ایک بیٹی کو ملیں  گے ۔

2-مرحومہ نے اگر اپنی زندگی میں چھوٹی بیٹی کوزیور دینے کا کہاتھا مگر دے کر حوالے نہیں کیا تھاتواب  زیور مرحومہ کا ترکہ ہے جس میں تمام ورثاء کا حق ہے۔

3- میت کے پس ماند گان  میں سے جن جن کووراثت میں سے حصہ ملتا ہے ان کے حق میں اگر وصیت کی جائے تودوسرے ورثاء کی رضامندی دیکھی جاتی ہے ،اگر دوسرے ورثاء وصیت کے مطابق عمل درآمد پر رضامند ہوں تو وصیت کے مطابق عمل کیا جاتاہے اوراگر رضامند نہ ہوں تو وصیت کالعدم ٹھہرتی ہے۔   اس لیے اگر ورثاءچاہیں تو وصیت کے مطابق کرایہ بیٹیوں کو دے دیں اوراگر نہ چاہیں تو وراثت  کے قاعدے کے مطابق کرایہ بھی تقسیم کرلیں ۔

4-کوئی شخص انتقال کرجائے اورپیچھے اولاد چھوڑ جائے تو اس کا مال اولاد کو ملتا ہے مگر جب تک کوئی شخص خود زندہ ہے وہ اپنے مال کا خود مالک ہے اوراولاد کااس کے مال میں کوئی حق وحصہ نہیں۔بعض والدین اپنی زندگی ہی میں اپنا مال اولاد میں تقسیم کردیتے ہیں جس سے ناواقف لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ زندگی میں میراث تقسیم کی جاتی ہے حالانکہ میراث کسی کے مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے،زندوں کی میراث تقسیم نہیں ہوتی اور والدین یا اولاد میں سے کون دوسرے کا وارث بنے گا یہ حق تعالی شانہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔والدین اگر اپنی رضا وخوشی سے اپنامال زندگی ہی تقسیم کرجائیں تو وہ تقسیم میراث نہیں ہوتا بلکہ والدین کی طرف سے عطیہ ہوتا ہے اور عطیہ دینے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا  مگر آج  کی نسل اپناحق سمجھ کر والدین سے مطالبہ کرتی ہے اوربعض اوقات بوڑھے والدین کو مجبور کرتی ہے اورتقسیم نہ کرنےپر ناحق اپنے والدین کو ستاتی ہے جب کہ ایساکرنا والدین کی نافرمانی بھی ہے اور  ناحق دوسرے کامال کھانابھی ہے۔

5- باپ  کی زندگی میں بیٹے نے تعلیم چھوڑ کراپنے والد  کا ہاتھ بٹایا اور کاروبار میں اس کی معاونت کی جس پر اللہ تعالی ٰ کے ہاں اجر وثواب کامستحق ہوگا

مگر دنیامیں جو کچھ والد کا تھا اورجوکچھ والد کے ماتحت رہ کر والد کےکاروبارکو بڑھایا وہ   والد کاہے  اوربیٹا ترکہ کی تقسیم کے وقت اس میں اپنے شرعی حصہ سے زیادہ کا حق دار نہیں۔  بیٹا اگر شریک کی حیثیت سے باپ کے ساتھ اس کے کاروبار میں شریک ہوتو وہ اپنےشراکتی حصے  کے بقدرمالک ہوتاہے مگر اس کےلیے ضروری ہے کہ بیٹے نے بھی کاروبار میں کچھ ملایا ہو یا والد نے کاوربار کا کچھ حصہ شرعی طریقے سے اس کے حوالے کیا ہو۔اگر بیٹا باپ کے ساتھ ملازمت کرتا ہو تو وہ اجرت کا مستحق ہے ،اس صورت میں اس کی اجرت باقاعدہ طے ہونی چاہیے اوراگروہ معاون اورمددگار کی حیثیت سے باپ کے ساتھ ہوتو پھر سب کچھ باپ کا ہے اور بیٹے کو مددوتعاون کی وجہ سے اجروثواب کا وعدہ ہے۔