حقیقی بہن کی موجودگی میں اخیافی بھتیجا شرعا وارث نہیں
سوال:۔میری نانی مرحومہ جس کا نام بھاگ بھری تھا، تحصیل راولپنڈی کی رہائشی تھی۔ 1900 کے اوائل میں ان کی شادی محمد بخش، سکنہ چہان، تحصیل راولپنڈی سے ہوئی تھی۔ وہاں ان کے بطن سے ایک لڑکا مسمی غلام محمد پیدا ہوا۔ جب یہ لڑکا تقریباً 4 یا 5 سال کا تھا تو گھریلو ناچاقی کی وجہ سے محمد بخش نے بھاگ بھری کو طلاق دے دی اور لڑکا مسمی غلام محمد اپنے پاس رکھ لیا اوربھاگ بھری کو گھر سے نکال دیا۔ بھاگ بھری اپنے میکے میں اپنے والدین کے پاس آ گئی اور یہاں رہنا شروع کر دیا۔ اس طرح مسمی محمد بخش سے تعلقات منقطع ہو گئے کیونکہ اس کے ساتھ اور کوئی رشتہ داری نہیں تھی۔ مسمی غلام محمد ولد محمد بخش 1985 میں وفات پا گئی اور اپنے پیچھے ایک لڑکا محمد اختر چھوڑا۔ اس کے کچھ عرصہ بعدمسما بھاگ بھری کی شادی ایک اور شخص مسمی الٰہی بخش سے ہوئی۔ یہاں اس کے بطن سے ایک لڑکا مسمی کریم بخش اور ایک لڑکی مسما غلام سکینہ پیدا ہوئی۔ اس طرح باقی ماندہ زندگی اپنے خاوند مسمی الٰہی بخش کے گھر گزاری اور 1939 میں انتقال کر گئی جبکہ اس کے خاوند نے 1954 میں وفات پائی۔ الٰہی بخش نے اپنے ترکہ میں ایک مکان اور تقریباً 2/1۔1 کنال ذرعی اراضی چھوڑی ہے۔ اس زمین اور مکان کا شریعت کے مطابق 3/2 حصّہ کریم بخش کو اور 3/1 حصّہ غلام سکینہ کے حصّے میں آگیا۔ یہاں یہ میں واضع کرنا چاہتا ہوں کہ اس مکان کی ظاہری حیثیت تبدیل نہیں ہوئی اور تقسیم صرف کاغذی تھی۔مسمی کریم بخش ولد الٰہی بخش تقریباً 85 سال کی عمر میں2003 میں بے اولاد فوت ہوئے جب کہ مسما غلام سکینہ کی شادی مسمی فضل الٰہی سے ہوئی اور ان کے بطن سے 4 بیٹے اور 6 بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ مسما غلام سکینہ 2006 میں وفات پا گئیں۔ ہم ان کی اولاد میں سے ہیں۔ کریم بخش جو کہ رشتے میں ہمارے ماموں لگتے ہیں نے اپنے ترکہ میں تقریباً 17 کنال اراضی زرعی زمین جو کہ (انہوں نے خود اپنی زندگی میں خریدی تھی) اور مکان جو کہ ان کو ان کے والد کے ترکہ میں 3/2 حصّہ اور باقی 3/1 حصّہ مسما غلام سکینہ ان کی بہن کے حصّہ میں تھا۔ یہ تقسیم صرف کاغذی تھی اور وہ مکان ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ مسمی کریم بخش کی وفات کے بعد وہ مکان اور زرعی زمین ابھی تک ہمارے کنٹرول میں ہے۔ مسمی کریم بخش جو کہ بے اولاد تھے اور وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہمارے پاس تقریباً 1960 میں راولپنڈی میں منتقل ہو گئے تھے اور ان کا تمام خرچہ اور رہائش ہمارے ذمّہ تھا اور تاحیات ہمارے پاس رہے۔جب ہماری والدہ غلام سکینہ جو کہ 2006 میں وفات پا گئیں تھیں تو ہم نے (غلام سکینہ کی اولاد) کریم بخش کی ذرعی زمین غلام سکینہ کے نام کرانے کے لیے محکمہ مال سے رابطہ کیا تو مسمی محمد اختر ولد غلام محمد جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، ہمارے خلاف زرعی زمین اور مزکورہ مکان میں سے6/1 حصّہ کا دعوی اپنے والدکی طرف سیعدالت میں دائر کر دیا۔ جب کہ دعوی زیرسماعت تھا مسمی محمد اختر 2009 میں وفات پا گئے۔ اس کی اولاد سے جو کہ مقدمہ کی پیروی کر رہی تھی عدالت نے رشتہ کی وابستگی کا ثبوت مانگا لیکن وہ کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے اور اس طرح مقدمہ ڈسمس کر دیا گیا۔اب ایک مسلمان ہونے کے ناطے سے اور قرآن کریم کے احکامات کی روشنی میں ہم تذبذب کا شکار ہیں۔ کوئی خاص دلیل سمجھ نہیں آتی۔ کیونکہ ایک طرف خیال ہے کہ جب ہماری نانی کو طلاق واقع ہو گئی تھی اور طلاق کی وجہ سے ہر قسم کا رشتہ ناطہ ٹوٹ جاتا ہے اور مسمی غلام محمد مرحوم کی ولدیت بھی مختلف ہے اور ہماری نانی نے اپنیترکے میں کچھ نہیں چھوڑا، اس کے باوجود زمین اور مکان میں ان کا حصّہ کیسے بنتا ہے؟ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلہ فرمائیں۔ (محمد نذیر ساکن راولپنڈی)
جواب:۔سوال میں ذکرکردہ تفصیل کے مطابق مسمیٰ محمد اختر بن غلام محمد اپنے والد غلام محمدکے اخیافی (ماں شریک) بھائی کریم بخش کا وارث نہیں بنتا کیونکہ محمد اختر ، کریم بخش کا اخیافی بھتیجا ہے اور کریم بخش کی وفات کے وقت ان کی حقیقی بہن غلام سکینہ موجود تھی۔
( فتاوی شامی 6/794-791 مفیدالوارثین : 213)