عالم دین کو مولوی یا مولانا کہہ کر پکارنا



سوال:کیا عالم دین کو مولوی کہنا درست ہے? کسی عالم دین کو پاک و ہند میں عام طور پر مولانا یا مولوی کا لقب دیا جاتا ہے-راقم چونکہ خود بھی فاضل وفاق المدارس ہے-اس لیے کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ قرون اولی کے علماء سے یہ لقب منسوب نہیں ہے اور قدیم و موجود اہل عرب کے علما کو بھی اس لقب سے لکھا یا پکارا نہیں جاتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے علماء نے یہ لقب کہاں سے اختیار فرمایا،بطور طالب علم میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس لفظ کی تاریخ کیا ہے؟ سب سے پہلے یہ لقب کس نے کس کو دیا؟ نیز یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ علماء اہل عرب کا اس لقب سے اجتناب کیوں ؟ اور کہیں یہ لفظ ایرانی سازش تو نہیں کہ ہم بے خبری میں اس لفظی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں؟

جواب:۔مولانا کا لفظ"مولیٰ"اور "نا" سے مرکب ہے ۔مولی فصیح عربی  کا لفظ ہےاوراس  کا استعمال قرآن مجید، احادیث مبارکہ اورکلام عرب میں موجودہے،۔علماء عربیت نے اس کے پچاس سے زائد معانی بیان کیے ہیں،عام لغات میں بھی اس کے پندرہ سترہ معانی بآسانی دستیاب ہیں۔ اسی لفظ کے ساتھ "نا" ضمیر بطورمضاف الیہ استعمال کی جاتی ہے۔ جہاں تک اس کے سب سے پہلے استعمال کی بات ہے تو خود اللہ جل شانہ نے قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کرکے اپنے، جبریل امین اور نیک مسلمانوں کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایاہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "فان اللہ ھو مولاہ وجبریل وصالح المومنین(سورہ تحریم ،آیت 2)یعنی بے شک اللہ تعالیٰ اورجبریل اور نیک اہل ایمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں۔ یہاں ایک ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بھی، فرشتے کے لیے بھی اور خواص اہل ایمان(یعنی نیکوکاروں)کے لیے بھی یہ لفظ استعمال فرمایاہے۔ جس سے معلوم ہواکہ جبریل امین اور تمام نیکو کار اہل ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں، اور یہ لقب انہیں خود بارگاہ ایزدی سے عطاہواہے۔ اس سے آگے چلیں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو فرمایا: "یا زید انت مولانا"۔ معلوم ہوا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں۔

قرآن پاک اور احادیث کے اس استعمال سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ یہ لفظ خالص عربی اور فصیح لفظ ہے نہ کہ فارسی یا ایرانی۔ اورمختلف مواقع پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال سے بھی معلوم ہوگیا کہ نیک اور خاص اہل ایمان کے لیے یہ لفظ بطور اعزاز کے استعمال کیاجاناچاہیے۔ اسی استعمال اوربرکت کی نسبت سے قدیم زمانہ سے اہل حق علماء نے اصحاب علم کے لیے یہ لفظ بطور احترام منتخب کیاہےاور اب مولانا کالفظ خاص اصطلاح ہوگئی ہے جوہردرس نظامی سے فارغ التحصیل کے لیے استعمال ہوتی ہے خواہ وہ علم میں پختہ ہویانہ ہو۔ لہٰذا اسے سازش نہیں کہاجائے گا بلکہ یہ استعمال قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی اقتدا میں ہے۔