دوسرے کا وراثتی حصہ استعمال میں لانا



سوال:۔زید نے والد کی وفات کے بعد عرصہ دراز تک وراثت کی تقسیم میں پس و پیش سے کام لیا اور انفرادی طور پر مال وراثت سے مستفیض ہوتا رہا۔اپنے سگے بھائی بکر کواس مال وراثت کے نفع سے محروم رکھا،حالانکہ بکر کے پاس مال وراثت کی تقسیم کا قانونی جواز بھی موجود تھا۔مذکورہ حالت میں زید کا حج وعمرہ ادا کرناکیسا ہے،جب کہ اس کے مال میں مال وراثت کا و ہ نفع بھی شامل ہے،جو اس نے عرصہ دراز تک اپنے بھائی بکر کی رضامندی کےبغیراستعمال کیا۔اس حوالےسےرہنمائی فرمائیں۔(محبوب الٰہی،جہلم)

جواب:۔زید نے  وراثت تقسیم نہ کرکے احکام خداوندی کی خلاف  ورزی کی ہے کیونکہ وراثت کی تقسیم کی متعلق صاف اور صریح  احکام موجود ہیں اور جو لوگ ان احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کو مدت دراز تک جہنم میں رہنے کی وعید سنائی گئی ہے۔اس گناہ اور سخت گناہ کے علاوہ زید نے جس قدر بکر کاحصہ استعمال کیا وہ حرام استعمال کیا اور جو نفع کمایا وہ ناجائز کمایا۔اب زید پر لازم ہے کہ وہ بکر کے حصہ وراثت سے حاصل شدہ نفع کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردے ۔حج اور عمرہ کے متعلق حکم یہ ہےکہ اگر زید نے اپنے مال سے یااپنےحصے سے کمائے ہوئے مال سے یہ عبادات اداکی ہیں تو ادا ہوگئی ہیں مگر اسے چاہیے تھا کہ پہلے بکر کے حق سے اپنے آپ کو سبکدوش کرتا ۔اگر زید نے بکر کے مال سے یا اس سے کمائے ہوئےنفع سے حج اور عمرہ کیا ہے توحج کرنے سے اس کے ذمہ سے فریضہ ساقط ہوگیا ہے مگر ان عبادات کے جو انوارات وبرکات  ہوتےہیں وہ زید کو نہیں ملے اور ان مقدس عبادات سے جو قرب خداوندی اور اجروثواب ملتا ہے  زید اس سے محروم رہا ہے کیونکہ اللہ تعالی خود پاک ہیں اور اپنے دربار میں صرف پاکیزہ مال ہی قبول فرماتےہیں۔