میاں بیوی کے حقوق



سوال:۔بیوی کے شوہرپر کیا حقوق ہیں اور شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے؟اگر بیوی شوہر کی بات نہیں مانتی اور وہ اپنی مرضی کرے تو شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔(سلمان خان،راول پنڈی(

جواب:- میاں بیوی کے کچھ حقوق تو مشترک ہیں  اور کچھ ایسے ہیں جو بیوی کے شوہر کے ذمہ لازم ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو شوہر کے بیوی کےذمہ لازم ہیں ،پھر ان میں سے کچھ مادی اور کچھ غیر مادی اور کچھ بذریعہ عدالت قابل حصول ہیں  اور کچھ کا تعلق اخلاقیات کے ساتھ ہے اور قانون اور عدالت کے زور پر ان کا حصول ممکن نہیں ۔اگر ان سب کوذکر کیا جائے  تو جواب بہت طویل ہونے کا اندیشہ ہے  اس لیے مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے مسئلے کے متعلق شریعت کی ہدایات کو اختصار کے ساتھ ذکر کردیا جائے چنانچہ شریعت نے بیوی پر لازم کیا ہے کہ  وہ جائز امور میں شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرے ،دل وجان سے اس کی خدمت کرے، حدیث میں اس قدر ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا  ! اگر شوہر اپنی بیوی کو حکم دے کہ زرد پہاڑ سے پتھراٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے  اور سیاہ پہاڑ سے پتھر سفید پہاڑپر لے جائے تو بھی اسے (اپنے شوہر کی) اطاعت کرنی چاہیے(  مشکوۃ المصابیح ،ص: 283) ایک اور حدیث میں ہے   کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی عورت اچھی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب شوہر اسے دیکھے تو اسے خوش کردے اور جب اسے حکم کرے تو اس کی اطاعت کرے  (ایضا، ص:283) ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جس عورت  کا انتقال اس حال میں ہوجائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ عورت جنت میں داخل ہوگی ۔( ترمذی 138) شوہر کی نافرمانی کے متعلق حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالی ٰعنہ  سے روایت ہے آپﷺفرمایا ! کہ تین شخص ایسے ہیں  کہ جن کی نماز ان کے کانوں سے بھی اوپر نہیں اٹھتی ، جن میں ایک وہ عورت  ہے جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر ( اس کی نافرمانی یا بد خلقی کی وجہ سے ) اس سے ناراض ہو۔ ( مشکوۃ المصابیح  ، ص: 100)  نبی کریم ﷺ نے عورتوں کے حقوق بھی بیان فرمائے ہیں چنانچہ ارشاد فرمایا ! کامل مؤمن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں  اور تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے لیے اچھے ہوں (ترمذی ،مشکوۃ المصابیح ،ص: 282) ایک حدیث میں ہے کہ کامل ایمان والا  وہ  ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنے والا ہو ۔(  مشکوۃ المصابیح ،ص: 281)

لہٰذاشوہرکو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ  حسن اخلاق ، نرمی ،اور شفقت کا معاملہ کرے اور اگر کسی وقت اس کی طرف سے کوئی  خلاف طبع امر پیش آجائے  توصبر وتحمل سے کام لے اور اسے اپنے تئیں سمجھانے کی کوشش کرے اگر کوشش کے باوجود نہ سمجھے تو گھر میں رہتے ہوئے اپنا بستر الگ کرلے  اگر یہ کوشش بھی سود مند نہ ہو توحدود کی رعایت رکھتے ہوئے اسے تنبیہ وسرزنش کرے اور اگر تادیب وتنبیہ کا نسخہ بھی کارگر ثابت نہ ہو تو   خاندان کے معززین  کے ذریعے اسے سمجھایا جاسکتا ہے  ۔