میراث کی تقسیم شریعت یا جرگہ سسٹم کے تحت ؟



سوال:۔میرے دادا مرحوم کی جائیداد پر میرے والد صاحب اور ان کے بھتیجوں (میرے چچازاد بھائیوں) کے درمیان تنازع پیدا ہوا ہے ۔میرے والد صاحب کا کہنا ہے کہ پہلے قرآن وسنت کے مطابق تقسیم ہوگی پھر قانون پاکستان کے تحت تقسیم ہوگی۔جب کہ میرے چچا زاد بھائی کا کہنا ہے کہ ہم جرگہ سسٹم کے تحت تقسیم کریں گے۔دونوں اپنے اپنے موقف پر ضد کررہے ہیں۔آپ کی رہنمائی درکار ہے کہ کون اپنے موقف پر صحیح ہے۔کیا شرعی لحاظ سے تقسیم کا انکار گناہ اور خارج اسلام کے دائرے میں نہیں آتا۔ (صلاح الدین،کراچی(

جواب:- مسلمانوں کو قرآن کریم میں سختی کے ساتھ تاکید ہے کہ وہ اپنے جھگڑوں کا فیصلہ اور نزاعات کا تصفیہ شریعت کے مطابق کریں  اور شرع شریف کا جو حکم ہو اس کو دل سے قبول کرلیں اور اپنا سراس کے سامنے جھکادیں۔اس لیے وراثت ہو یا کوئی اور نزاع ہو ،ہر ایک کا فیصلہ شریعت کے مطابق کرانا چاہیے ۔وراثت کے احکام کو تو قرآن کریم نے بہت اہتمام  کے ساتھ بیان کیا ہے اورجو شخص ان احکام کی نافرمانی کرے اس کے متعلق صاف ارشاد فرمادیا ہےکہ :یدخلہ نارا خالدافیھا ولہ فیھا عذاب مھین یعنی ڈالےگا اس کو آگ میں، ہمیثہ رہےگااس میں  اور ان کے  لیے ذلت کا  عذاب ہے۔

اب جو لوگ قرآن وسنت کے بجائے جرگہ سسٹم کی شرط لگاتے ہیں  وہ قرآن کریم کے واضح اور صریح حکم کو پس پشت ڈال کر کسی معمولی خطا کے نہیں بلکہ بہت اعلی درجہ کے جرم اور بہت بڑی سرکشی کے مرتکب ہیں اورجو شخص یہ کہتا ہے کہ پہلے قرآن وسنت کے مطابق اورپھر قانون کے مطابق تقسیم ہوگی،اس کا موقف بھی خلاف شریعت ہے کیونکہ شریعت کو آخری اور حتمی قانون کے طور پر وہ بھی تسلیم نہیں کرتا بلکہ شریعت کے بعد قانون کی گنجائش اس کے موقف میں موجود ہے۔