ذکر کثیر سے مراد



سوال:۔قرآن و حدیث میں ذکر کی بہت فضیلت ہے۔سوال یہ ہے کہ ذکر کی کثرت کیا ہوتی ہے اگر کوئی بندہ کثرت سے ذکر کرنا چاہے تو روزانہ کتنا کرنا چاہیے ؟(منیر احمد)

جواب:- دوباتیں مختصرا عرض کرنے کے بعد آپ کے سوال کے جواب کی طرف آتا ہوں۔" ذکر اللہ " اپنے وسیع مفہوم کے لحاظ سے نماز ، قرآن  کریم کی تلاوت، دعا اور استغفار وغیرہ سب کو شامل ہے لہذا جو شخص ان میں سے کسی چیز میں مصروف ہے وہ ذکراللہ میں مشغول ہے البتہ  عرف میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا ،اس  کی عظمت و کبریائی اور اس کی صفات ِکمال کے بیان ودھیان کو "ذکر اللہ" کہا جاتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ  اللہ تعالیٰ نے  کثرت ذکرکاجوحکم دیا ہے وہ اپنے عموم کے لحاظ سے  ذکر لسانی اور ذکر قلبی  دونوں کو شامل ہے۔ان دوباتوں کے بعدآپ کا سوال کہ  ذکر کی کثرت سے کیامراد ہے۔؟علامہ آلوسی بغدادی رحمہ اللہ روح المعانی میں لکھتے ہیں اکثر حضرات سے منقول ہے کہ ذکر کثیر ،اکثر اوقات اوراکثر احوال میں اللہ کا ذکر کرنے کا نام ہے۔حضرت عبداللہ ابن عباس  رضی اللہ عنہ سے منقول ہے  کہ"  ذکر کثیر یہ ہے کہ انسان کبھی اللہ تعالیٰ کو نہ بھولے۔حضرت  مقاتل وغیرہ سے منقول ہے کہ سبحان اللّه والحمد اللّه ولا إله إلّا اللّه واللّه أكبر  ہر وقت  پڑھتا  رہے تو  ذکر کثرت سے کرنے والا شمار ہوگا ۔مجمع البیان میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے موجود ہے کہ جبریل نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا  کہ آپ  " سبحان اللّه والحمد اللّه ولا إله إلا اللّه واللّه أكبر ولا حول ولا قوة إلا باللّه العلي العظيم عدد ما علم وزنة ما علم وملء ما علم " پڑھیں جو شخص یہ پڑھے گا کثرت سے ذکر کرنے والوں میں شمار کیا جائے گا ۔

کثرت کی تفسیر میں عرف کو بھی معیار بتلایا گیا ہے کہ عرف میں جتناذکر کرنے کو کثرت سے ذکر کرنا شمار کیا جاتا ہو وہ کثرت ِ ذکر کہلائے گا ۔ان سب باتوں کے حاصل کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ  کثرتِ ذکر کا اعلی  درجہ یہ ہے کہ  انسان ہر لمحہ اورہر لحظہ  اللہ کو زبان یا دل سے یاد کرےحتیٰ کہ کسی کام میں مشغول ہو تو  بھی دل یاد الٰہی میں مصروف  ہو  چنانچہ حضرت  ابن عباس سے  کثرت ذکر کی جوتفسیر منقول ہے وہ یہ ہے کہ :دن رات ،بحر وبر،سفر وحضر ،مرض وصحت ، تنہائی  اور مجمع میں  غرض ہر حال میں اللہ کاذکر کرو۔کثرت ذکر کا  دوسرا درجہ یہ ہے جو اگر چہ سے پہلے درجہ سے کم ہے  مگرمشایخ کےبقول آج کی مصروف زندگی میں اس کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے وہ یہ  کہ فرض نماز کے ساتھ ساتھ تلاوت کا اہتمام کیا جائے،صبح وشام کی جو مسنون دعائیں  اور  اذکاراحادیث میں منقول ہیں ان کا بھی اہتمام ہواوراس کے ساتھ فجرو عصر کے بعد بھی کچھ دیر ذکر کرلیا جائے۔اگر ان معمولات کا اہتما م کرلیا جائے جوکہ زیادہ مشکل بھی نہیں   تو کثرت ِ ذکر کا مصداق بن جائے گا ۔(تفسیر روح المعانی 11/220، تفسیر طبری20/279 ، تفسیر ابن کثیر 6/433)