شوہر یا زوجہ کی حین حیات شادی کرنا



سوال :- میں قانون کے پیشہ سے وابستہ ہوں ۔بسا اوقات کچھ اس قسم  کا مواد زیر مطالعہ جاتا ہے  جس کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کے متعلق  تردد ہوجاتا ہے۔ایسی ہی ایک الجھن مجھے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 494 کے متعلق بھی ہے۔آپ یہ دفعہ ملاحظہ کرنے کے بعد اس کے موافق یا مخالف اسلام ہونے کے متعلق اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔دفعہ کا متن کچھ اس طرح ہے:" جو کوئی شخص جس کا شوہر یا زوجہ زندہ ہو جو کسی ایسی  حالت میں ازدواج کرے جس میں وہ  ازدواج شوہر یا زوجہ کی زندگی  میں واقع ہو نے کے سبب سے باطل ہو تو اس کو دونوں قسموں میں سے کسی قسم قید کی سزا دی جائے گی جس کی میعاد سات برس ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب  ہوگا ۔

مستثنیٰ Exception : اس دفعہ کے احکام اس شخص کے متعلق نہیں  جس کا ازدواج اس شوہر یا زوجہ  کے ساتھ کسی عدالت مجاز  کے فیصلہ  سے باطل قرار دیا گیا ہو ۔

اور نہ ایسے شخص سے متعلق ہے جو اپنے سابق شوہر یا زوجہ کی زندگی میں ازدواج کرے  ۔اگر وہ شوہر یا زوجہ اس پچھلے  ازدواج کے وقت سات  برس کی مدت  میں مسلسل اس کے پاس  سےغیر حاضر  رہا یا رہی ہو اور نہ اس نے اس عرصے میں کبھی سنا  ہو کہ وہ زندہ ہے مگر شرط یہ ہے کہ  وہ شخص  جو دوسری شادی کرنے کوہو  پہلےصحیح  حالات جہاں تک اس کے علم میں ہوں اس شخص سے بیان کردے  جس کے ساتھ شادی ہونے کو ہے ۔

 جواب :- یہ دفعہ چند وجوہ سے محل نظر ہے ۔تفصیل سے قبل اس دفعہ کے اجزائے ترکیبی پر نظر مناسب ہے۔اس دفعہ کی رو سے جرم کے اجزائے ترکیبی درج ذیل بنتے ہیں:    
۱ ۔کوئی شخص (مرد یا عورت )پہلے سے شادی ہو  
۲۔پہلی شادی درست طور پر ہوئی ہو    
۳۔پہلے شادی وقوعہ کے وقت قائم ہو   
۴۔ایسا شخص ایک اور شادی کرے     
۵۔دوسری شادی پہلی شادی کی وجہ سے باطل ہو  
اس دفعہ میں پہلی خرابی یہ ہے کہ شوہر اگر سات برس تک مسلسل اپنی بیوی سے غیر حاضر رہا ہو اور بیوی اس کی موت و حیات سے لا علم ہو اور وہ اس صورت حال سے پوری صداقت و دیانت کے ساتھ اپنے ہونے والے شوہر کو آگاہ کردے تو دفعہ ہذا کی رو سے اس کا دوسرا نکاح جائز ہے ، حالانکہ شرعی نقطہ نگاہ سے تاحال وہ پہلے شوہر کی منکوحہ ہے اور اس کانکاح برقرار ہے اگر چہ پہلے شوہر کو غائب ہوئے سو برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو۔ شریعت میں ایسا کوئی استثناء نہیں ہے کہ بیوی کو محض اس بناء پر نکاح ثانی کی اجازت ہو کہ شوہر طویل زمانے سے غیر حاضر ہے اور بیوی اس کے موت وحیات سے لاعلم ہے۔ اس طرح کی صورت حال سے دوچار عورت اگر غیر حاضر شوہر سے خلاصی اور چھٹکارہ چاہتی ہے تو اسکا طریقہ یہ ہے کہ کسی مجاز عدالت میں دعویٰ دائر کر ے اور شرعی شہادت کے ذریعے غائب شخص سے اپنا نکاح ثابت کرے۔عدالت میں دعو یٰ دائر ہونے کے بعد عدالت اپنے ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے شوہر کو تلاش کرے اور جب تلاش سے ناامید ہوجائے تو مدعیہ کو چار سال کی مدت تک انتظار کا حکم دے ، اگر صورتِ حال ایسی ہو کہ بیوی سخت تنگی کا شکار ہو ، مثلاً خرچ کابندوبست نہ ہو ، اسے اپنی عزت و عصمت محفوظ رکھنے کا ڈر ہو یا کسی اور معقول وجہ کی بناء پر شوہر کی صورت میں تحفظ چاہتی ہو تو عدالت اسے صرف ایک سال انتظار کا حکم دے ، ایک سال کی مدت گزرجانے کے بعد عدالت اسے عدت گزارنے کا حکم دے ، متوفٰی عنہا زوجھا (بیوہ )کی عدت ، یعنی چار مہینے دس دن گزارنے کے بعد وہ عورت آزاد ہے ۔     
حاصل یہ ہے کہ جب تک یقینی ذرائع سے معلوم نہ ہو کہ شوہر کی موت واقع ہو چکی ہے یا جب تک مجاز عدالت غائب شخص سے مدعیہ کا نکاح منسوخ نہ کردے اس وقت تک بیوی کیلئے نکاح ثانی نادرست اور خلاف شرع اسلام ہے ۔   
لہٰذا دفعہ ۴۹۴ کی یہ استثناء (کہ شوہر سات برس سے مسلسل غائب ہو اور بیوی اس سے مکمل لا علم ہو تو اسے نکاح ثانی کی اجازت ہے) خلاف شرع اور کالعدم ہے ۔      

دوسری خرابی     
یہ دفعہ ایک مسلمان عورت کیلئے سخت تنگی کا باعث بھی ہے ، جسکی تفصیل یہ ہیکہ اگر مجاز عدالت اس نکاح اول کو باطل قرار دے تو اسے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت ہوگی جسکا مطلب یہ ہے کہ عورت کو عدالتی فیصلے کا پابند کردیا گیا ہے ، اگر وہ دوسرا نکاح چاہتی ہے تو اسے پہلے نکاح سے متعلق مجاز عدالت سے تنسیخ کی ڈگری حاصل کرنی ہوگی ۔مثلا ایک عورت کا شوہر دین اسلام سے پھر جاتا ہے جس سے اس کانکاح خود بخود فسخ ہوجاتا ہے ،یہی عورت شوہر کے ارتداد کی وجہ سے نکاح ثانی کرلیتی ہے تو درست ہے،مگر چونکہ کسی مجاز عدالت نے اس کا نکاح باطل نہیں قرار دیا ہے ،اس لیے اس کا ازدواج ثانی دفعہ ہذا کے تحت جرم ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کا خصوصا عورتوں کے طبقے کا عدالتوں کی طرف رجحان بہت کم ہے ، اول تو ہر ایک کی رسائی نہیں ہے اور جن کی رسائی بھی ہے وہ بھی عدالتوں سے مراجعت بہت کم کرتے ہیں جس کی وجہ ہمارا طویل ، پیچیدہ ، گنجلک اور مہنگا نظام انصاف ہے ۔ مشاہدہ یہ ہے کہ عدالتوں سے رجوع کرنے میں وقت اور پیسہ بہت ضائع ہوتا ہے اور انصاف پھر بھی نہیں ملتا اس سے ایک عورت جسکا نکاح اول شریعت کی نگاہ میں کالعدم ہو مگر وہ عدالتی سند نہ رکھتی ہو تو وہ نکاح ثانی سے قاصر رہے گی جس سے بے شمار اخلاقی اور معاشرتی مفاسد جنم لیں گے ۔ کوئی عورت اگر دوسرا نکاح چاہے گی تو پہلا شوہر بے دینی پر اتر آئیگا اور نکاح میں رکاوٹ بنے گا اور اگر وہ عورت ہمت کرکے دوسرا نکاح کر بیٹھے گی تو اسے ہر وقت سابقہ شوہر کی طرف سے عدالتی کاروائی کا کھٹکا رہے گا جس سے اسکی ازدواجی زندگی بے سکونی کا شکار رہے گی ۔ 
حاصل یہ ہے کہ جس عورت کا پہلا نکاح از روئے شرع کالعدم ہو اسے عدالتی فیصلہ حاصل کئے بغیر نکاح ثانی کی اجازت ہونی چاہئے ، ایسی عورت کا ہر صورت میں نکاح اس شرط کیساتھ مشروط کرنا کہ وہ اس کے پہلے نکاح کو عدالت مجاز نے کالعدم قرار دیا ہو، اس کیلئے تنگی اور حرج کا باعث ہے ۔ 
 

تیسری خرابی یہ ہے کہ دفعہ ہذا ایک مسلمان مرد پر قابل اطلاق نہیں ہونی چاہیے کیونکہ مذہب کی رو سے اسے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے،مگر ہمارے عائلی قوانین میں تعدد ازدواج کی ممانعت ہے۔مزید یہ کہ پہلی شادی کے درست یا نادرست ہونے کا مدار عدالتی فیصلے پر نہیں بلکہ شریعت پر ہونا چاہیے۔عائلی قوانین کی صورت میں ہمارے ہاں جو قوانین رائج ہیں وہ فسخ نکاح کی تمام صورتوں کا استیعاب نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات شریعت کی رو سے ایک نکاح باطل یا قابل ابطال ہوتا ہے مگر عدالت کی نظر میں درست ہوتا ہے۔