خلع کی حقیقت



سوال :۔خلع  کسے کہتے ہیں اور اس میں طلاق میں کیا فرق ہے اور کیا شوہر اپنی بیوی کو اس کی مرضی کے بغیر خلع دے سکتا ہے۔

جواب :۔خلع  کا لفظی معنی اتاردینا ہے۔قرآن کریم ایک بلیغ استعارےکے ذریعے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے لیکن جب دونوں خلع کرلیتے ہیں تو اس معنوی لباس کواتاردیتے ہیں ،اس وجہ سے  اسے خلع کہتے ہیں ۔خلع  باہمی رضامندی سے نکاح  کی تنسیخ ہے  تاہم  اس میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہوتی ہے   ۔باہمی رضامند ی کا مطلب یہ ہے کہ  ایک فریق دوسرے فریق کو خلع پر مجبور نہیں کرسکتا۔نہ بیوی  شوہر سے زبردستی خلع لے سکتی ہے اور نہ ہی  شوہر بیوی کو خلع لینے پر مجبور کرسکتا ہے اور نہ کوئی تیسرا فریق ان کے درمیان خلع واقع کرسکتا ہے۔خلع کےبرعکس طلاق  شوہر کا اختیار ی عمل ہوتا ہے۔شوہر  چاہے تو بیوی کی مرضی کے خلاف بھی اسے طلاق دے سکتا ہے کیونکہ نکاح کی گرہ اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے تو کھولنے کا اختیار بھی اسے ہوتا ہے۔

خلع کی پیشکش میاں بیوی میں سے کسی ایک طرف سے ہوسکتی ہے،ضروری نہیں کہ بیوی کی طرف سے مطالبہ ہو مگر عام طور جب بیوی ناراض ہوکر جدائی چاہتی ہے تو وہ آزادکیے جانے کے معاوضہ کے طور پر شوہر کو کچھ مال کی پیشکش کرتی ہے۔عموما بیوی اپنے حق  مہر اور دوسرے حقوق سے دست بردار ہوجاتی ہے لیکن اگر وہ شوہر کے لیے کسی اور فائدے کا اقرار کرلے تو بھی خلع درست  ہوجاتا ہے۔