طلاق کا طریقہ کار اورتعداد طلاق میں اختلاف کاحکم
سوال:۔اسلام میں طلاق دینے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایسے حالت میں طلاق دی جائے، جب بیوی سے ازدواجی تعلق قائم نہ ہواور ایک وقت میں ایک طلاق دی جائے،لیکن اگر کوئی طلاق دیتے وقت ان باتوں کا خیال نہ رکھے اور بیوی سے صحبت کرنے کے چند گھنٹے بعد ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو ایسی صورت میں شریعت کے کیا احکام ہیں۔وضاحت فرمائیں۔نیزاگر شوہر اور بیوی کے درمیان طلاق کی تعداد میں اختلاف ہو یعنی بیوی کہے کہ شوہر نے تین طلاق دی ہے اور شوہر کہتا ہے کہ اس نے صرف دو مرتبہ طلاق دی ہے۔تو اس صورت میں شوہرکی بات مانی جائے گی ۔یہ مولانا یوسف لدھیانویؒ کا فتویٰ درست ہے۔براہ مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔(ایم تنویر،گوجرہ)
جواب:۔طلاق کاسب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ زمانہ طہر (ایک حیض اور دوسرے حیض کے درمیان کا عرصہ ) میں صرف ایک طلاق رجعی دی جائے۔زمانہ طہر ایسا ہو اس میں بیوی سے ازدواجی تعلق قائم نہ کیاہو۔اس کے بعد زمانہ عدت میں بیوی سے صحبت کرنے سے گریز کیا جائے۔اس طریقہ کار کو طلاق احسن کہتے ہیں اور یہ وہ طریقہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں پایا جاتا ہے۔اس کاایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ شوہر غوروفکر کے بعد اگر چاہے تو بیوی کو لوٹا سکتا ہے۔اس کے برعکس جو لوگ ایک ہی جملے میں تین طلاقیں دے دیتے ہیں یا علیحدہ علیحدہ جملوں میں تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں وہ طلاق کے مقررہ طریقہ کار کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے گناہ گار بھی ہوتے ہیں اور طلاقیں بھی تینوں کی تینوں واقع ہوجاتی ہیں ۔
اس طرح کی بے قاعدہ طلاق اگرچہ مذہبی لحاظ سے اچھی نہیں ہے تاہم واقع ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ سے ایک صاحب کےمتعلق پوچھا گیا جنہوں نے اپنی بیوی کو بیک وقت سو طلاقیں دی تھیں، آ پﷺ نے فرمایا ! کہ رب کی نافرمانی کی اور اس سے نہیں ڈرا، عورت کا نکاح اس سے ختم ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص نےحاضر ہوکر کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہیں ،آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ! "ایک شخص گندگی میں جاکر لت پت ہوجاتا ہے ، جا! تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ پر حرام ہوگئی ، وہ اب تیرے لئے حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح کرے ۔
میاں بیوی میں اگر طلاق کے عدد کے بارے میں اختلاف ہوجائے۔بیوی تین طلاقوں کا دعوی کرے اورشوہر دو کا اقرار کرے توبار ثبوت بیوی پر عائد ہوتا ہے ۔اگر بیوی اپنا موقف ثابت کرنے میں ناکام رہے توشوہر کی بات کا قسم کے ساتھ اعتبار کیا جائے گا(جیسا کہ حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ علیہ نے لکھا ہے ) آج کل بے دینی عام ہے۔ اگر شوہر دین دار نہیں ہے اور بیوی کو یقین ہے کہ شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں تو بیوی کو چاہیے کہ شوہر کو اپنے قریب نہ آنے دے اور اس سے گلو خلاصی کی تدبیر کرے تاہم جب تک باقاعدہ شوہرسے علیحدگی نہ ہوجائے اس وقت تک کہیں اور نکاح جائز نہ ہوگا(کتاب الآثار ص:276،رقم : 487 ، سنن بیہقی 7/331 ،شامی3/ 257، عالمگیری 1/457)