وارث کے لئے وصیت کا حکم
سوال:۔میرے سسر نے ایک تحریر لکھی کہ میرے مرنے کے بعد میری پانچ بیٹیوں کو فی کس چار ایکڑ زمین دے دی جائے۔ اس تحریر پر ان کے دونوں بیٹوں نے دستخط کیے۔ ان کے مرنے کے بعد بیٹے مکر گئے اور بہنوں کو فی کس ایک ایکڑ دیا۔ مرحوم نے اپنی زندگی میں ۴۲/۴۲ ایکڑ بیٹوں کے نام کر دیے تھے۔ فوت ہوتے وقت ان کے نام ۹ ایکڑ تھے۔ اس مکرنے کا گناہ کس کے سر ہے؟(پ۔ ف)
جواب :- وارث کے حق میں وصیت ہو تو وصیت کے قابل عمل ہونے کے لیے شرط ہے کہ وصیت کنندہ کی موت کے بعد دوسرے ورثاء اس پر عمل درآمد کی اجازت دے دیں۔اگر دوسرے ورثا ء رضامندی کا اظہار کردیں تو وصیت کے مطابق عمل ہوتا ہے اور اگر وہ انکار کردیں تو وارث کے حق میں وصیت کالعدم ٹھہرتی ہے۔ اس اصول کے مطابق بیٹوں کو اپنے والد کی وفات کے بعد وصیت پر عمل کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ہے اور جو رضامندی انہوں نے والد کی حیات میں دی تھی وہ چونکہ وقت سے پہلے تھی اس لیے اس کااعتبار نہیں تاہم بیٹوں کا اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ جب ان کو والد نے اپنے حین حیات بڑی مقدار میں زمین دے دی تھی تو وہ مرحوم والد کی خواہش کے مطابق بہنوں کو وصیت کے مطابق حصہ دے دیں لیکن اگر وہ وصیت کےمطابق عمل درآمد نہیں کرتے تو عدالت کے زور پر ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔مرحوم کو چاہیے تھا کہ اپنی حیات ہی میں بیٹوں کی طرح بیٹیوں کو ان کا حصہ حوالہ کردیتے اور اگر بیٹوں کو بھی زمین کا قبضہ نہیں دیا تھا تو بیٹوں کی ملکیت ثابت نہیں ہوئی اور اب بیٹوں کے نام کی جانے والی زمین بھی وراثت میں تقسیم ہوگی۔ ( جامع الترمذی 2/32 ۔سنن نسائی 2/13۔ فتاویٰ عالمگیری 6/90 )