بیمہ سے ملنے والی اضافی رقم



سوال۔میرا سوال یہ ہے کہ بیمہ  کو حرام کہا جاتا ہے  اور یہ کہ سود کے حکم میں ہے میرے علم کے مطابق سود وہ کہلو؎اتا جو فکس ہو  حالانکہ بیمہ کی مد میں جو رقم ملتی ہے وہ فکس نہیں ہوتی۔مجھے کچھ عرصہ تک بیمہ کی اقساط جمع کرانی ہے جس کے بعد مجھے بیس سال بعد تیس لاکھ تک رقم ملے گی لیکن یہ رقم تیس لاکھ سے ایک دو لاکھ کم بھی ہوسکتی ہے۔ زبیرراول پنڈی

جواب۔بیمہ حرام ہونے کی کئی وجوہات ہیں  جن میں سے ایک یہ ہے کہ رقم پر مشروط اضافہ ملتا ہے  اور یہ اضافہ سود ہوتا ہے مثلا سو روپے پر دس روپے فکس کرکے لیے جائیں تو وہ بھی سود ہے اور سو روپے پرسود متعین کرکے نہ لیا جائےبلکہ کچھ اوپر لے لیا جائےتووہ بھی سود ہے۔سود اس وجہ سے ہے کہ کمپنی کے ذمہ پریمیم کی رقم قرض ہوتی ہے اور قرض پر نفع  ملتا ہے اور یہ نفع  بیمہ کے عقد میں مشروط ہوتا ہے اور یہی سود کی حقیقت ہے۔ ۔سود کے علاوہ بیمہ میں قمار کی برائی بھی ہے اور قمار بھی حرام ہے۔ سود اور قمار کے علاوہ بیمہ میں غرر کا پہلو بھی ہے اورغرر بھی ناجائز ہے ۔الغرض بیمہ کا معاہدہ سود اورقمار کے علاوہ ناجائز شرائط پر مشتمل ہوتا ہے جس کی وجہ سے بیمہ کا معاہدہ ناجائز اور حرام ہے۔

(شرح المجلۃ  ص: 34 المادہ 35 ۔ شامی 6  / 403 ۔ خلاصۃ الفتاوی 3/54)