تعویذ کا حکم



سوال -: ہمارے علاقے میں اکثر لوگ تعویذ وغیرہ کرتے ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ عمل شرک اور حرام ہے۔ تعویذ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس حوالے سے قرآن کریم کی کیا تعلیمات ہیں؟(محمد آفریدی، چمن)


جواب:۔تعویذ کے لیے کچھ شرطیں ہیں مثلا اس میں کوئی مشرکانہ بات نہ ہو،اس کے الفاظ کا معنی ومطلب معلوم ہو اور تعویذ کو دوا کی طرح ایک تدبیر سمجھ کراستعمال کیا جائے۔اگر ان شرطوں کی رعایت ہو تو تعویذ لکھنا،لٹکانا اور پلاناجائز ہے۔خود آنحضرتﷺ سے آیات قرآنی کا دم کرنااور حضرات صحابہ وتابعین سے تعویذ لکھ کر پلانا اور لٹکانا ثابت ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں لکھتے ہیں :علماء کا اتفاق ہے کہ تین شرطوں کی موجودگی میں تعویذ جائز ہے ایک یہ کہ اللہ تعالی کے کلام یا اس کے اسماء وصفات پر مشتمل ہو،دوم یہ کہ عربی زبان میں ہو یا کسی ایسی زبان میں ہو جس کا معنی معلوم ہو،تیسرے یہ کہ عقیدہ یہ ہو کہ تعویذ بذات خود موثر نہیں بلکہ اللہ تعالی اس میں تاثیر ڈالے گا تو موثر ہوگا۔جن احادیث میں تعویذ کی ممانعت آئی ہے ان سے مراد ایسا تعویذ ہے جن میں پیچھے بیان کردہ شرائط میں سے کوئی شرط موجود نہ ہومثلا تعویذ میں کوئی مشرکانہ بات ہو یا اللہ تبارک وتعالی کے بجائے خود اس تعویذ میں شفا یا کامیابی سمجھی جائے یا تعویذ میں ایسے کلمات ہوں جن کا معنی ومطلب معلوم نہ ہو۔حاصل یہ ہے کہ ہر قسم کے تعویذ کو جائز کہنا بھی درست نہیں اور مطلقا ہر تعویذ کو غلط کہنا بھی ناروا ہے ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے :فتح الباری کتاب الطب جلد۱۰ص۲۲۰ ،اور مرقات المفاتیح ،کتاب الطب والرقی ،فصل اول،ص۳۴۸،مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ،اور فتاوی شامی ،کتاب الحظروالاباحۃ ،فصل فی اللباس،جلد۶ص۳۶۳،طبع مکتبہ سعید