قربانی کے جانور کی نمائش لگانا
سوال:۔ہر سال قربانی کے ایام میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مویشی منڈی میں بہت سے ایسے صحت مند اور خوب صورت جانور لائے جاتے ہیں جو بیش قیمت اورقابل دید ہوتے ہیں۔ان جانوروں کو میلے کے انداز میں خاص شامیانے میں رکھا جاتا ہے،لوگ دور دور سے آکر انہیں دیکھتے ،ان کی تصاویر بناتے اور قیمت معلوم کرتے ہیں۔بعض صاحب ثروت حضرات انہیں خریدتے بھی ہیں،تاہم بیش تر مواقع پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسے جانورقربانی سے زیادہ گویا نمائشی مقصد سے خریدے جاتے ہیں تاکہ علاقے ،خاندان اور تعلق داروں میں چرچا اور خوب شہرت ہو۔ایسے لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟(محمد مشتاق،کراچی)
جواب ۔اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔جو لوگ مہنگا اور فربہ جانور لیتے ہیں تو ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ہم ان کی نیت پر شک نہ کریں اور ان کے بارے میں یہی حسن ظن رکھیں کہ وہ خلوص نیت اور رضائے الہی کی جذبے سے ایسا کررہے ہیں ۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسے صاحب ثروت افراد کا فرض بنتا ہے کہ وہ نمائش اور نمود والا طرز عمل اختیار نہ کریں کیونکہ اس سے اجروثواب بھی ضائع ہوجاتا ہے اور لوگوں کو بھی ان کی نیت پر شک کرنے کا موقع ملتا ہے۔قربانی کے بارے میں توخاص طور قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کو نہ اس کاگوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون بلکہ اسے تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے(سورہ حج آیت ۳۷) معلوم ہوا کہ اگر دل میں دکھاوے کا جذبہ ہے اور اپنی دولت کی نمود مقصود ہے تو جانور کاٹنے اور خون گرانے سے کچھ حاصل نہیں۔اگرسخاوت کا اظہار اور دولت کا رعب جمانا مقصد نہ بھی ہو پھر بھی قربانی کے جانوروں کی نمائش لگانے سے پرہیز ہی کرنا چاہیے۔میلے کا سا سماں ہوتا ہے ، مرد وزن مخلوط طور پر اسے دیکھنے آتے ہیں،تصویر یں کھینچتے اور موویاں بناتے ہیں،جانور کو رکھنے کے لیے شامیانے اور روشنی وغیرہ کے انتظام پر غیر ضروری اخراجات کیے جاتے ہیں ،قریبی تعلق والوں کو جانور بھگا اور دوڑا کر دکھایا جاتا ہے،اس طرح ان میلوں ٹیلوں اور غیر ضروری بکھیڑوں کی صورت میں شیطان اپنا بھرپور حصہ لگادیتا ہے اور قربانی کی روح فوت ہوجاتی ہے اور قربانی کرنے والا نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق بن جاتا ہے۔