ملازمت پیشہ بیوی کے نان ونفقہ کا حکم



سوال:۔میں ایک یونیورسٹی میں شرعی پردے میں رہ کرملازمت کرتی ہوں۔شادی کے فوراً بعد سسرال والوں نے زبردستی شروع کردی کہ میں اپنی تنخواہ شوہر کودوں۔ساس سسر کہتے ہیں کہ ’’ہم نے اس لیے اپنے بیٹے کی شادی تم سے کی ہے کہ تم کماتی ہواورتم میں کوئی خوبی نہیں‘‘حالاں کہ سسرال والے معاشی طور پر خوش حال ہیں۔ جب کہ شوہر میرا نان نفقہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں،میں اپنی ضرورت کی ہر چیز خود خریدتی ہوں،مجبوری یہ ہے کہ میں ملازمت چھوڑ نہیں سکتی ۔ان حالات میں ازروئے شریعت میرے لیے کیا حکم ہے؟(حمیرا ،اسلام آباد)


جواب :۔شوہر کے بیوی پر حقوق ضرور ہیں مگر شوہر کو بیوی کے مال یا جائیداد پر کوئی حق نہیں پہنچتا۔اگر بیوی اپنا مال شوہر کو نہ دے تو وہ گناہ گار نہیں اور اگر وہ مال دار ہے تو اس کا نان ونفقہ پھر بھی شوہر پر واجب ہے۔جہاں تک ملازمت پیشہ بیوی کے نان ونفقہ کا تعلق ہے تو اگر شوہر بیوی کو ملازمت سے روکتا ہے مگر بیوی پھر بھی ملازمت کے لیے نکلتی ہے تو اسے شوہر سے نان ونفقہ طلب کرنے کا حق نہیں اور اگر ملازمت میں شوہر کی رضامندی شامل ہے تو پھر بیوی کا نان ونفقہ شوہر پر لازم ہے۔اگر یہ دوسری صورت ہے کہ آپ شوہر کی اجازت سے ملازمت کرتی ہیں اور وہ آپ کے اخراجات نہیں اٹھاتے تو آپ کسی بھی جائز طریقے سے ان کو نان ونفقہ کی ادائیگی پر مجبور کرسکتی ہیں اور اس مقصد کے لیے خاندان اور برادری کے معززین کے علاوہ قانون اور عدالت کا سہارا بھی لے سکتی ہیں۔ساس وسسر کا جو جملہ آپ نے نقل کیا ہے وہ بہت ہی پست ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔شوہر کا طرز عمل بھی ناروا ہے اللہ تعالی نے مرد کو قوام بنایا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ خرچ کرتا ہے نہ کہ بیوی کے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔