حج کی ادائیگی میں اتنی تاخیر کے حج فوت ہوجائے



سوال:۔عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے صاحب ثروت افراد باوجود استطاعت کے فریضہ حج کی ادائیگی میں تاخیر اورکوتاہی برتتے ہیں۔بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ بیماری،بڑھاپے یا دیگر عوارض کی بناء پر حج نہیں کرپاتے اور دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں،ان کے بارے میں ازروئے قرآن وسنت کیا حکم ہے؟(محمد حارث،راولپنڈی)


جواب:۔ایسے لوگوں کا معاملہ بہت خطرناک ہے ۔جس شخص پر حج فرض ہو اور وہ ادا نہ کرے تو اس کے بارے میں حدیث میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کو اس کی پرواہ نہیں ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر مرے ۔بعض روایات میں ہے کہ اس کی پیشانی پر کافر کا لفظ لکھا ہوا ہوگا۔علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایسے شخص کا خاتمہ بالخیر نہ ہونے کا قوی اندیشہ ہے ۔حیرت ہے کہ اتنی سخت وعیدوں کے باوجود لوگ مختلف حیلوں بہانوں سے حج کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں مثلا کاروبار کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے ،کچھ کہتے ہیں کہ بچیاں جوان ہیں اور بعض لوگ یہ عذر تراشتے ہیں کہ حج آخری عمر کی عبادت ہے اور کچھ کا کہنا ہوتا ہے کہ دوبارہ اسی ماحول میں آنا ہے اور زندگی کی وہی روش برقرار رکھنی ہے تو حج کیوں کریں وغیرہ ۔اس طرح کے حیلوں بہانوں سے لوگ تاخیر پر تاخیر کرتے جاتے ہیں اور بالاخر وقت موعود آپہنچتا ہے اور پھر پنڈلیوں پرپنڈلیاں پٹختے چلے جاتے ہیں اور حج بدل کی وصیت کا موقع بھی نہیں مل پاتا۔حاصل یہ ہے کہ حج ایک دینی فریضہ ہے اوراس کی جلد ادائیگی بہتر ہے اور بغیر عذر کے تاخیر گناہ ہے اور جن لوگوں پر حج فرض ہو مگر کسی عارض کے سبب خود حج نہ کرسکتے ہوں ان پر اپنی طرف سے کسی کو بھیج کر حج بدل کرانا واجب ہے اور اگر زندگی میں کسی سے حج بدل نہیں کرایا تو حج بدل کی وصیت ان پر واجب ہے۔