حج کی ناقدری اورگناہوں کا ارتکاب
سوال:۔ اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ: ’’ہم نے حج تو کرلیا ہے، مگر معلوم نہیں خدا نے قبول کیا کہ نہیں؟‘‘ میں نے یہ سنا ہے کہ اگر کوئی مسلمان حج کرکے واپس آئے اور واپس آنے کے بعد پھر سے برائی کی طرف مائل ہوجائے یعنی جھوٹ، چوری، غیبت، دِل دکھانا وغیرہ شروع کردے تو یہ ان لوگوں کی نشانی ہوتی ہے جن کی عبادت خدا نے قبول نہیں کی ہوتی، کیونکہ انسان جب حج کرکے آتا ہے تو خدا اس کا دِل موم کی طرح نرم کرتا ہے اور سوائے نیکی کے وہ اور کوئی کام نہیں کرتا۔ یہ کہاں تک درست ہے؟
جواب :۔ حج جیسی عظیم عبادت کی جب اللہ تعالی نے توفیق دے دی تو اس کی رحمت سے امید یہی ہے کہ اس نے قبول بھی فرمالیا ہوگا۔اب اس طرح کہ جملے کہ معلوم نہیں اس نے قبول کیا ہوگا کہ نہیں،اس عبادت کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔اگر اس طرح کے جملے اس وجہ سے کہے جائیں کہ عبادت میں کوئی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو گی تو بھی اس کا علاج ناقدری اور ناشکری نہیں بلکہ توبہ واستغفار اور آئندہ کے لیے درست طریقے سے کرنے کا عزم ہے۔ حج کے بعد بھی اگر زندگی میں خوشگوار دینی انقلاب نہیں آتا اورحاجی پہلے کی طرح بے احتیاطی والی زندگی گزارتا ہے تو اس کے حج کی قبولیت کا معاملہ مشکوک رہتا ہے،ایسے افراد کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ انہیں حج کی روح حاصل نہیں ہوئی اور وہ یوں ہی گھوم پھر کر آگئے ہیں البتہ بشر ہونے کی حیثیت حج کے بعد بھی گناہ ممکن ہے مگر گناہ پر اصرار درست نہیں۔