ماں کوحق پرورش کب تک ہے؟
سوال:۔ اسلامی شریعت کی رو سے یہ تو واضح ہے کہ ماں باپ مل کر اولاد کی پرورش کرتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ جب میاں بیوی میں جدائی ہوجائے تو اولاد کی پرورش کا حق ماں کو ہے لیکن ماں کو یہ حق کب تک ہے ،اس سلسلے مجھے مذہب حنفی کی تحقیق درکار ہے ،امید ہے کہ ہے کہ آپ تفصیل سے جواب دیں گے ۔علی مجاہد،کراچی
جواب :۔ماں کا حق پرورش سب پر فائق ہے،سب ہی اس پر متفق ہیں، اختلاف صرف مدت حضانت (پرورش ) میں ہے کہ ماں کو یہ حق کب تک حاصل رہتا ہے ؟ظاہر الروایۃ میں مدت کی تعیین و تحدید نہیں کی گئی ہے بلکہ استغناء کو معیار قرار دیاگیا ہے ۔ استغناء کی تفسیر وتشریح میں امام قدوری ؒ نے فرمایا کہ بچہ خود کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے اور استنجاء کرنے لگے ۔ استنجاء سے بعض نے ازالہ نجاست اور بعض نے طہارت کا حصول مراد لیا ہے اور دیگروں نے طہارت کاملہ کی تعبیر اختیار کرکے دونوں ہی مراد لئے ہیں ۔ کھانا پینا اور اوڑھنا اتارنا ، صغر سنی میں بچے کی اولین ضروریات ہوتی ہیں اس لئے ایک عمومی قاعدے کے طور پر کہا جاتا ہے کہ بچہ اپنی روز مرہ کی ضروریات میں ماں کا محتاج نہ رہے بلکہ کسی سہارے اور تعاون کے بغیر خود ان ضروریات کی تکمیل کرسکے تو ماں کا حق پرورش ختم ہوجاتا ہے ۔ ائمہ مذہب کے علاوہ خود امام قدوری ؒ کا شمار بھی متقدمین میں ہوتا ہے اس لئے استغناء اور اس کی تعبیر سے واضح ہے کہ متقدمین کی نگاہ حضانت کے فلسفہ اور روح پر ہے ۔ ہر زمانے ، موسم ، غذا ، ماحول اور ظروف و احوال کے بدلنے سے چونکہ استغناء کی مدت کم و بیش ہو سکتی ہے اس لئے متقدمین نے تعیین کے ساتھ کوئی مدت مقرر نہیں کی ۔ بعد کے علماء نے دیکھا کہ اب ایک لگے بندھے اور نپے تلے ضابطے کی ضرورت ہے اس لئے انہوں نے شرعی نصوص میں غور و فکرکرکے اور اپنے زمانے کے بچوں کے عمومی احوال کو دیکھ کرایک مدت کی تحدید کردی ۔ امام ابوبکر رازیؒ نے نو سال مدت مقرر کی جبکہ امام خصاف ؒنے اس کا اندازہ سات یا آٹھ سال لگایا ہے ۔ فتوی امام خصاف کے قول پر ہے اور اسی کو معتمد کہا گیا ہے ۔ اس مفتی بہ قول کی بنیاد دیگر دلائل کے علاوہ وہ مشہوربھی حدیث ہے کہ بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کا حکم دو ۔ ظاہر ہے کہ نماز کا حکم اسی وقت دیا جا سکتا ہے کہ بچہ اس کی قدرت بھی رکھتا ہو کیونکہ حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ بچہ طہارت وغیرہ خود انجام دے سکتا ہے ورنہ قدرت و استطاعت کے بغیر شریعت کسی کو کسی حکم کا مکلف نہیں بناتی ۔
متذکرہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سات سال کے بعد لڑکے کو باپ کی تحویل میں دے دینا چاہئے تاکہ وہ اپنا فریضہ ادا کرسکے ۔ بچے کو نماز کاحکم دینے سے واضح ہے کہ اب اس کی تعلیم و تربیت اور مردانہ اخلاق و آداب سیکھنے کا وقت ہے اور یہ امور مرد ہی سرانجام دے سکتے ہیں عورتوں سے ان کی توقع فضول ہے ۔
لڑکی کے متعلق ظاہر الروایۃ میں ہے کہ بلوغت تک حاضنہ(پرورش کنندہ ) کے پاس رہے گی ،اگرچہ سات سال کی عمر میں ایک بچی کی بھی کافی ذہنی و جسمانی نشو و نما ہو جاتی ہے اور وہ لڑکے کی طرح اپنی روزمرہ کی ضروریات خود پوری کر نے لگتی ہے مگر چونکہ اسے زنانہ فنون مثلاً کڑہائی ، سلائی ، پکائی وغیرہ اور زمانہ کے اخلاق و آداب اور گھر گرہستن کے امور سیکھنے کی ضرورت رہتی ہے اس لئے اس کی پرورش کی مدت بلوغت تک رکھی گئی ہے ۔ بعض فقہاء کے بقول یہ حکم اس وقت ہے جب وہ ماں یا نانی یا دادی کے زیر پرورش ہو ۔اگر وہ کسی اور حاضنہ مثلاً پھوپھی یاخالہ کے زیر پرورش ہو تو صرف مشتہاۃ ہونے تک ان کے پاس رہنے دی جائے گی ۔ یہ جامع الصغیر کی روایت ہے اور قدوری کی روایت میں جب وہ کھانے پینے وغیرہ میں محتاج نہ رہے تو اسے مستحق عصبہ کے سپرد کر دیا جائے گا ۔
اس مقام پر یہ وضاحت خالی از فائدہ نہ ہوگی کہ قانون کے متعلق بعض کتابوں میں مشتہاۃ کی تشریح میں کہا گیا ہے کہ اس میں نفسانی خواہشات پیدا ہوجائیں ، حالانکہ مشتہاۃ کا اصل مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی شہوت کی نگاہیں اس کی طرف اٹھنے لگیں اور مردوں کو اس میں رغبت محسوس ہو ۔
امام محمد ؒ کا قول یہ ہے کہ لڑکی چاہے ماں یا نانی یا کسی اور پرورش کنندہ کے ماتحت ہو ، مشتہاۃ ہونے کے بعد وہ عصبہ(قریب ترین مرد رشتہ دار جس سے رشتے میں عورت کا واسطہ نہ آتا ہو) کی تحویل میں دی جائے گی ۔ پھر اس میں اختلاف ہے کہ لڑکی کس عمر میں اس حد تک پہنچ جاتی ہے ؟ فقیہ ابو اللیث نے نو سال کی عمر متعین کی ہے اور مشایخ نے فساد زمانہ کی بنیاد پر اس پر فتوی دیا ہے ۔ ذخیرۃ العقبی ٰمیں فساد زمانہ کی تشریح میں ہے کہ لڑکیاں مردوں کی نگاہوں کا ہدف رہتی ہیں ،ا س لئے انہیں جلد باپ کے زیر سایہ مضبوط پناہ گاہ میں دے دینا چاہئے ۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ مرد عزت و ناموس کے معاملات میں جان پر کھیل جاتے ہیں جبکہ عورتوں کا خون ایسے معاملات میں بہت کم جوش مارتا ہے ۔
حاصل کلام یہ ہےکہ پرورش کا اولین حق بچے کی ماں یاپھر اس کی قریبی عزیزہ کو ہے مگر یہ حق کب تک قائم رہتاہے،اس سلسلے میں مفتی ٰ بہ قول یہ ہےکہ اگر زیر پرورش لڑکا ہو تو سات سال تک اور لڑکی ہو تو نو سال تک اس کی سگی ماں کو حق پرورش رہتاہے۔ (بدائع الصنائع للکاسانی 2/459،مطبوعہ بیروت۔جامع الرموز،فصل الحضانۃ1/592،مطبوعہ ایچ ایم سعید۔البحرالرائق4/169،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ۔الجوہرۃ النیرۃ 2/274،بیروت)