میں نے اپنی لڑکی تمہارے لڑکے کو دی،کہنے کا حکم



سوال:۔میری ایک بہن ہے جس  کے بچپن ہی میں میرے والد نے اپنے بھائی سے کہہ دیاتھا کہ میں نے اپنی بچی تمہارے بیٹے کو دے دی ،اب بلوغت کے بعد میری بہن اس رشتے  کو پسند نہیں کرتی اور چچا زاد کا بھی کوئی زیادہ اصرارنہیں مگر تردد یہ ہےکہ بچپن کا نکاح ہوا تھا یا نہیں؟عبدالبصیر،پشین

جواب:۔ شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی سے جنگ کے اسی کالم میں اس نوعیت کا سوال ہو اتھا،آپ نے جو جواب دیا تھا وہ بہت جامع اور کافی وشافی ہے،تبرک کے حصول کےلیے میں اسے ہوبہو نقل کرتا ہوں،ملاحظہ کیجیے: ”میں نے اپنی لڑکی تمہارے لڑکے کو دے دی“ کے الفاظ کبھی ”رشتے کا وعدہ“ یعنی منگنی کے لئے بولے جاتے ہیں، اور کبھی نکاح کے ایجاب و قبول کے لئے، اب فیصلہ طلب چیز یہ ہے کہ یہ الفاظ لڑکی کے والد نے کس حیثیت سے کہے تھے؟ اس کا فیصلہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ:

          الف:… جس مجلس میں یہ الفاظ کہے گئے اگر وہ مجلس لڑکے یا لڑکی کے نکاح کے لئے منعقد کی گئی تھی، قاضی کو بھی بلایا گیا تھا، گواہ بھی بلائے گئے تھے، مہر بھی مقرّر کیا گیا تھا، اور لڑکے لڑکی کے والدین نے اپنے بچوں کی طرف سے وکیل بن کر ایجاب و قبول بھی کیا تھا تو یہ ”نکاح“ ہوا۔ بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو اس کے توڑنے کا اختیار نہیں، اور اس کا عدالت میں دیا ہوا بیان بھی بے محل ہے، اب اس کا حل یہ ہے کہ لڑکے سے باقاعدہ طلاق لی جائے۔

          ب:… دُوسری صورت یہ ہے کہ جس موقع پر یہ الفاظ کہے گئے تھے، نہ وہ نکاح کی مجلس تھی، نہ مہر کا ذکر تھا، نہ گواہ تھے تو ”میں نے اپنی لڑکی تمہارے لڑکے کو دے دی“ کے الفاظ محض وعدہٴ نکاح یا منگنی شمار ہوں گے، اس لئے لڑکی کا وہاں شادی کرنے سے انکار صحیح ہے، کیونکہ جب ان الفاظ سے نکاح ہی نہیں ہوا، تو لڑکی کو عدالت میں جاکر بیان دینے کی ضرورت نہیں۔

والد نے نابالغ لڑکی کا نکاح ذاتی منفعت کے بغیر کیا تھا تو لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد ختم کرنے کا اختیار نہیں