نزاع کے حل کے غیر شرعی قانون کو ثالث مقرر کرنا



 

سوال:۔ میں نے ایک صاحب سے کاروباری معاملہ کیا  اور معاہدہ میں یہ شرط لگانی چاہے کہ جھگڑے کی صورت میں ہم شریعت کے مطابق فیصلہ کریں گے لیکن ان کا اصرار تھا کہ بالفرض نزاع ہوگیا تو ہم رائج الوقت قانون کے مطابق اس کا فیصلہ کریں گے۔مجھے معلوم ہے کہ ہمارا قانون شریعت کے مطابق نہیں  تو کیا  میں نے ان کی شرط قبول کرکے گناہ کیا  ،اس بارے میں آپ  کیافرماتے  ہیں؟ضیاء الدین غوری،کراچی

جواب:۔قرآن کریم نے قطعی فیصلہ دے دیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے معاملات میں شریعت الٰہی کو ثالث اور فیصل بناناچاہیے ،ارشاد باری ہے کہ:

نہیں ،اے محمد !تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے  جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں،بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔(سورہ نساء آیت:65)اس آیت نے ایک مسلمان کے لیے یہ گنجائش ہی نہیں چھوڑی ہےکہ  وہ غیر شرعی قانون کے ذریعے نزاع کو حل کرنے کی شرط رکھے ،اور جس طرح یہ شرط عائد کرنا جائز نہیں اسی طرح اس شرط کو تسلیم کرنا  بھی جائز نہیں۔اس لیے معاہدہ کے دونوں فریق گناہ گار ہوئے ہیں۔