مالک کی اجازت بغیر اس کے لیے تعمیر کرنا
سوال:۔کیا زکوٰۃ کی رقم سے بھائی کے گھر میں کمرے بنواسکتے ہیں،وہ چھوٹا سرکاری ملازم ہے،اس کی تنخواہ میں بمشکل گزارا ہورہا ہے اور قرض دار بھی ہے۔آیا کمرے بنانے کے لیے بھائی کو مطلع کرنا اور ان کی رضا مندی حاصل کرناضروری ہے،جب کہ اس کے بچے جوان ہیں اور ان کا موجودہ گھر دو کمروں میں مشتمل ہے،شرعی لحاظ سے جوان بہن بھائیوں کا ایک کمرے میں رہنا مناسب نہیں۔ازروئغ شریعت اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں؟(ایم اے خلجی،کوئٹہ)
جواب:۔آپ کا جذبہ اچھا ہے مگر بھائی کے حقوق کا احترام بھی بہت ضروری ہے۔وہ مالک ہے اور مالک ہونے کے ناطے اس کی پیشگی اجازت ضروری ہے۔رہی ان کی ضرورت تو ان کی مالی حالت کا جو نقشہ آپ نے کھینچا ہے اس کے تحت تو وہ اور بچے گزارہ کرنے پر مجبور ہیں اور کررہے ہیں۔وسعت اور فراوانی ہو تو لوگ علیحدہ علیحدہ محلات میں بھی رہتے ہیں مگر تنگی ہو تو کسی انسان کو کیا الزام دیا جاسکتا ہے۔بہرحال بھائی کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد آپ زکوۃ کی مد میں ان کے ہاں کمرے تعمیر کرواکے ان کے حوالے کرسکتے ہیں اور زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ زکوۃ کی رقم ان کے حوالے کردیں اور ساتھ میں چاہیں تو تعمیر کا مشورہ بھی دے دیں۔زکوۃ کی رقم یا زکوۃ سے خریدی یا بنائی ہوئی شی دیتے وقت زکوۃ کا بتانا ضروری نہیں بلکہ ہدیہ اور تحفہ کے نام سے بھی پیش کرسکتے ہیں۔