عورت کا اپنا حصہء وراثت بھائیوں کو معاف کرنا
سوال:۔ اگر کوئی عورت ازخود اپنے والدین کی وراثت سے اپنی مرضی سے جائیداد میں سے حصہ لینے سے انکار کر دے۔ اس کی وجہ یہ ہوکہ اگروہ حصہ لے گی تواس کے بھائیوں کو گھر بیچنا پڑے گا، یا پھر ان کے لئے مسئلہ ہو گا کہ وہ کیسے اسے جائیداد میں سے حصہ دیں، اس لئے وہ اپنا حصہ نہیں لیتی، جب کہ وہ خود بھی عورت مالدار نہ ہو، کیااس خاتون کی ایثار پر مبنی یہ سوچ ٹھیک ہے۔ نیزہمارے معاشرے میں اگر شادی شدہ بیٹی وراثت میں حصہ لے تو بہت باتیں کی جاتی ہیں کہ اسے بھائیوں کا خیال نہیں آیا جو حصہ لے لیا ۔ یہ خوف بھی عورت کو حصہ لینے سے روکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیاایسی صورت میں یہ عورت اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرتی، کیونکہ یہ حصہ اس کے بچوں کے بھی تو کام آئے گا۔ بھائیوں کی بہتری کے لئے اپنے بچوں اور فیملی کے ساتھ زیادتی کرنا کیا یہ درست عمل ہے؟نیز کیا اسلام میں یہ ضروری ہے کہ عورت والدین کی جائیداد میں سے اپنا حصہ لے یا وہ اپنی مرضی سے اس حق دست بردار بھی ہو سکتی ہے۔ ازروئے شریعت اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں۔(مرزا ابو داؤد سلیم، پشاور)
جواب:۔عورت اپنے حصہ وراثت سے دست برار ہوسکتی ہے مگر اس کے لیے دو شرطیں ہیں۔پہلی شرط یہ ہے کہ دست برداری رضاکارانہ اور قلبی رضامندی سے ہونی چاہیے۔اگر عورت پر وراثتی حصہ چھوڑنے کے لیے دباؤ ہو یا وہ شرما شرمی کی وجہ سے یا معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے کہ وراثت میں حصہ لینے والے کو برا اور معیوب سمجھا جاتا ہے،اپنا حصہ معاف کردے یا اس وجہ سے کہ اس خاندان میں عورت کو حصہ دینے کا رواج ہی نہ ہو یا اس وجہ سے کہ اسے معلوم ہو کہ بھائی ناراض ہوں گے یا اسے یہ یقین ہو کہ بھائی وراثت میں حصہ نہیں دیں گے اور مطالبہ کرنا اپنے آپ کو ذلیل کرنا اور بھائیوں کی نارضگی مول لینا ہے،اگر ان وجوہات میں سے کسی وجہ سے عورت اپنا وراثتی حصہ معاف کرتی ہے تواس کا حصہ برقرار رہتا ہے کیونکہ جب معافی دلی رضامندی سے نہ ہو تو اس کا اعتبار نہیں۔ہمارے معاشرے میں جب کوئی عورت اپنا حصہ وراثت چھوڑتی ہے تو پس پشت مذکورہ وجوہات میں سے کوئی وجہ ہوتی ہے اس لیے جن بھائیوں کے ہاتھ میں متروکہ اموال وجائیداد کا نظم ونسق اور قبضہ واختیارہو، ان کو چاہیے کہ بہنوں کو ان کا مقررہ حصہ سپرد کردیں اور بہنیں اپنا حصہ لے کر اسے استعمال میں لائیں اور پھر اگر چاہیں تو بھائیوں کو ہبہ کردیں،کیونکہ قبضہ اور استعمال کے بعد اگر بہنیں اپنا حصہ بھائیوں کو منتقل کرتی ہیں تو یہ قیاس خاصی قوت حاصل کرلیتا ہے کہ وہ دل سے بھائیوں کو اپنا حصہ بخش رہی ہیں۔
وراثت سے دست برداری کی دوسری شرط یہ ہے کہ دست برداری بلامعاوضہ نہ ہو کیونکہ شرعی اصول یہ ہے کہ عین سے ابراء درست نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ قرضہ اور مالی واجبات تو معاف کرنے سے معاف ہوجاتے ہیں لیکن مکان،دوکان،زمین اور اشیاء وغیرہ معاف کرنے سے معاف نہیں ہوتی بلکہ بدستور معاف کرنے والے کی ملکیت میں رہتی ہیں۔اس اصول کے تحت اگر کوئی بہن بصد خوشی اور صدق دل سے بھی اپنا حصہ معاف کرتی ہے تووہ معاف نہیں ہوتا البتہ اس تدبیر سے معاف ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے حصے کے عوض کوئی چیز قبول کرلے اگر چہ عوض معمولی قیمت کا ہی کیوں نہ ہو مثلا مکان کے بدلے انگوٹھی لے کر وہ اپنا حصہ چھوڑ سکتی ہے ۔حاصل یہ ہے کہ دستبرداری خوش دلی سے ہو اور شرعی طریقے سے ہو تو درست ہے ورنہ نہیں۔یہ سوال کے کسی عورت کے بھائی بھی تنگدست ہوں اور اسے خود بھی اور اس کی اولاد کو بھی ضرورت ہو تو کیا اسے اپنے بھائیوں سے اپنا وراثتی حصہ لینا چاہیے یا معاف کردینا چاہیے،بالفاظ دیگر بھائی مقدم ہیں یا اپنی ذات اور اولاد،جواب یہ ہے کہ عورت اگر اپنا حصہ بھائیوں کو چھوڑتی ہے تو اس کافعل بھائیوں کے حق میں عطیہ ہوگا اور عطیہ کا اصول یہ ہے کہ اگر اپنی اولاد ضرورت مند ہو تو انہیں ترجیح دینی چاہیے۔