بیٹیوں کو عطیہ سے محروم رکھنے والے کو کافر سمجھنا



سوال:۔ہمارے ایک بزرگ نے اپنی ساری جائیداد اپنے دو بیٹوں کے نام ہبہ کرا دی ہے اور اپنی بیٹیوں کو محروم کر دیا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ رب العالمین نے میراث کو حدود اللہ میں شمار کیا ہے، جو شخص عورتوں کو اُن کا جائز حصّہ نہیں دیتا تو ایسا شخص اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نافرمان ہونے کی وجہ سے جہنمی ہے،وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اسے ایسی سزا ہو گی،جس میں ذلت بھی ہے۔ ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جس نے کسی وارث کو اُس کی میراث سے محروم رکھا،اللہ تعالیٰ اسے جنّت کی میراث سے محروم کر دے گا۔میری رائے میں ایسے شخص کو دائرۂ اسلام سے خارج سمجھنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کے لیے ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے؟ ازرُوئے شریعت وضاحت فرمادیں۔(محمدحسین،اسلام آباد)
جواب:زندگی میں بیٹوں کو عطیہ دینا اور بیٹیوں کو محروم رکھنا یا موت کے بعد انہیں وراثت سے محروم رکھنا دونوں ہی صورتیں نادرست اور خلاف اسلام ہیں۔یہ جاہلیت کی رسمیں تھیں جنہیں اسلام نے مٹایا تھا مگر لوگ پھر سے انہیں زندہ کررہے ہیں۔جن صاحب نے بیٹیوں کو بالکلیہ عطیہ سے محروم رکھا ہے وہ انصاف اور مساوات کا اصول نظرانداز کرنے اور جاہلی رسم کو زندہ کرنے کی وجہ سے گناہ گارہیں،اس حد تک آپ کی بات درست ہے مگر جو نتیجہ اور حکم آپ نے اخذ کیا ہے کہ ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے ،یہ معتزلہ اور خوارج جیسے گمراہ اور بدعقیدہ فرقوں کی رائے ضرور ہے مگر اہل سنت والجماعت کا مذہب نہیں۔گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے باوجود مسلمان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا اورمسلمان چاہے فاسق وفاجر ہی کیوں نہ ہواس پر جنازہ پڑھی جائے گی اوراسے سنت طریقے سے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔