وارث کے لیے وصیت کا حکم
سوال:۔ہماری ایک بہن(غیرشادی شدہ) کا حال ہی انتقال ہوا ہے،ان کے ورثہ میں والدہ،بھائی اور بہن ہیں،یہ سب سگے ہیں۔ان کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟ایک بھائی کا کہنا ہے کہ انتقال سے قبل بہن نے مجھے وارث بنایا ہے،لہٰذا فوت شدہ بہن کا میں حق دار ہوں اور باقی ورثہ اس بات کو ماننے میں تیار نہیں ۔اس حوالے سے شرعاً کیا حکم ہے؟(ندیم،کراچی)
جواب:مرحومہ نے جو کچھ مال چھوڑا ہے اس میں سے پہلے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکال لیں اورپھر مرحومہ پر کوئی قرضہ ہوتو اداکرلیں،اس کے بعد جو کچھ بچ جائے اس میں سے چھٹا حصہ والدہ کا ہے اور بقیہ مرحومہ کے بھائی اور بہن میں تقسیم ہوگا، بھائی کو بہن کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔جو وارث کہتا ہے کہ بہن نے تنہا مجھے وارث بنایا ہے، اس کے کہے کا اعتبار نہیں کیونکہ شریعت نے تینوں کو وارث بنایا ہے۔دراصل وہ اپنے حق میں وصیت کا دعوی دار ہے،اس لیے اول تو اس سے وصیت کا ثبوت طلب کیا جائے گا اور اگر اس نے اپنے حق میں وصیت ثابت کردی تو بھی بے سود ہے کیونکہ وارث کے حق میں وصیت ہو تو اس پر عمل دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف رہتا ہے اور جب دوسرے ورثاء رضامند نہ ہوں تو وصیت کالعدم اور باطل ٹھہرتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے ہر حق دار کو اس کاحق دے دیا ہے اس لیے وارث کے لیے وصیت نہیں۔