نفل نماز اور روزوں کا ثواب دوسروں کو بخشنا
سوال:۔کیا نفل روزے اور نماز کا ثواب کسی مرحومہ کو دیا جاسکتا ہے؟مثلاً میں نے بارہ رکعت چاشت نمازکے پڑھے اور چھ رکعت کا ثواب اپنی والدہ مرحومہ کو عطا کیا،ایسا کرنا صحیح ہوگا؟اگر شوال کے چھ روزے رکھے اور اس کا ثواب والدہ محترمہ کو دیے تو کیا یہ عمل درست ہے؟(زاہد حسین)
جواب:ایصال ثواب جائز ہے،اس سے میت کو بھی نفع پہنچتا ہے اور پڑھنے والے کو بھی ثواب ملتا ہے،ایصال ثواب کرنے والے کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوتی اور جس کو ثواب ہدیہ کرتا ہے اس کو پورا ثواب پہنچتا ہے اور جس طرح مرحومین کے لیے ایصال ثواب جائز ہے اور انہیں فائدہ پہنچتا ہے اس طرح زندوں کو بھی اپنے نفلی اعمال کا ثواب بخشا جاسکتا ہے۔فتح القدیر میں لکھا ہے کہ انسان کو حق ہے کہ وہ اپنی نیکیوں کا ثواب دوسروں کو بخش دے چاہے نماز ہو،ذکر ہو،تلاوت ہو،حج ہو،عمرہ ہویا صدقہ ہو یہی اہل سنت کا مسلک ہے۔حضرت سعد ابن عبادہ کی والدہ کا انتقال ہوا،اس وقت وہ موجود نہیں تھے،جب آئے تو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میری عدم موجودگی میں والدہ کا انتقال ہوگیا ،اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا وہ ان کے لیے فائدہ مند ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں(اس کا ثواب انہیں پہنچے گا)انہوں نے عرض کیا تو میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ اپنا باغ میں نے اپنی والدہ(کے ثواب ) کے لیے صدقہ کردیا۔ حاصل یہ ہے کہ نفلی نماز پڑھ کر ،روزہ رکھ کر،مساکین کو کھانا کھلاکراورنقدی وغیرہ صدقہ کرکے آپ اپنی والدہ مرحومہ کو بخش سکتے ہیں اور اس کا ثواب انہیں ملے گا ، اس لیے دن ،تاریخ اور عمل کا التزام کیے بغیر آپ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی والدہ کو اپنے نیک اعمال کا ثواب پہنچا سکتے ہیں اور سعادت مند اولاد اسی طرح نیک اعمال کے تحفے اور ہدیے اپنے والدین،اعزہ واقارب اور عام مسلمانوں کو پہنچاتی رہتی ہے البتہ یہ احتیاط لازم ہے کہ ایصال ثواب کے لیے نہ کوئی عمل متعین ہے نہ کوئی دن مقرر ہے اور نہ کوئی خاص صورت قائم کرنا ضروری ہے جب کہ لوگ جب ایصال ثواب کرتے ہیں توخاص دنوں میں کرتے ہیں اور مخصوص اعمال کاکرتے ہیں اور خاص طریقے سے جمع ہوکر کرتے ہیں، اس طرح بہت سی رسمیں اورخلاف شرع باتیں اس عمل میں شامل ہوجاتی ہیں، ان رسوم اور خلاف شرع باتوں سے اجتناب لازم ہے۔
ناپاک چیز پر کپڑا بچھا کر نماز پڑھنا