صریح الفاظ سے بائن طلاق کا واقع ہونا
سوال:طلاق کے جو الفاظ صریح ہو ں ان سے تو رجعی طلاق واقع ہوتی ہے لیکن بعض کتابوں میں صریح سے بائن کا واقع ہونا لکھا ہے جس کا سمجھنا مجھ جیسے طالب علم کے لیے دشوار ہے کیونکہ جب کوئی لفظ صریح ہے تو پھر اس بائن کیسے واقع ہوسکتی ہے ؟(محمد علیم الدین،کراچی)
جواب:۔صریح کا مطلب صرف اتنا ہے کہ جو نیت کا محتاج نہ ہو خواہ اس سے رجعی طلاق واقع ہوتی ہو یا بائن۔یہ سوچ کہ صریح سے رجعی ہی واقع ہوتی ہے،درست نہیں،بہت سی صورتوں میں صریح سے بائن بھی واقع ہوجاتی ہے،مثلا
۱:طلاق کسی معاوضے میں دی گئی ہو۔
۲:شوہرخودصراحت کردے کہ وہ طلاق بائن دے رہاہے۔
۳:جس عورت سے صحبت نہ ہوئی ہو، اگرچہ خلوت ہوچکی ہو۔
۴:طلاق بائن کے بعدتجدیدِ نکاح سے پہلے عدت کے اندرصریح طلاق دی ہو۔
۵:جس طلاق سے طلاق کاعددتین تک پہنچ جائے، وہ بھی بائن بلکہ بائن کی قسمِ اکبر ’’بینونتِ کبریٰ‘‘ ہوتی ہے۔
۶:طلاق دی اورعدت گزرنے تک رجوع نہ کیاتوصریح طلاق بائن بن جاتی ہے یا یوں تعبیر کرلیں کہ بیوی بائنہ ہو جاتی ہے۔
۷:نکاح کی جوتنسیخ عدالت کی مداخلت سے ہو، وہ بھی بعض صورتوں میں بائن کاحکم رکھتی ہے۔
۸:طلاق کے بعدکوئی جملہ ایسابڑھادیاجس سے صریح بائن بن جائے، جیسے تمہیں طلاق دے کراپنی زوجیت سے علیحدہ کرتاہوں۔
۹:کوئی ایسی صفت بڑھادی جائے جس سے طلاق میں شدت پیداہوجائے اورمعلوم ہو کہ شوہرفوری طورپررشتۂ زوجیت ختم کرناچاہتاہے، جیسے:’’تمہیں بدترین طلاق، پہاڑکے برابر طلاق، فاحشہ طلاق، طلاقِ قطعی، طلاق دائمی دے دی۔ ‘‘
۱۰:کنایہ بائن کے الفاظ جو عرف کی وجہ سے صریح بن چکے ہیں ان سے بھی بائن ہی واقع ہوتی ہے جیسے لفظ آزاد اور حرام وغیرہ
۱۱۔اسی طرح رجعی اور بائن جب اکھٹی دی جائیں تو دونوں بائن ہوتی ہیں خواہ رجعی پہلے ہو یا بعد میں۔ان تمام صورتوں میں صریح سے بائن ہی واقع ہوتی ہے۔