پوسٹ مارٹم اور عورت کا مرد ڈاکٹر سے چیک اپ کرانا



سوال:۔مردے کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے۔اگر جسم عورت کا ہو اور مرد ڈاکٹر کا اسے دیکھنا اور چھونا کیسا عمل ہے۔نیزکوئی عورت کسی مرد ڈاکٹر سے علاج یا چیک اپ کرسکتے ہیں یا نہیں؟(ت۔عباسی،کراچی)

جواب:انسان کو اللہ تعالی نے بحیثیت انسان کرامت اور عزت بخشی ہے اور اگر اس کے ساتھ وہ مسلمان بھی ہو تو اس کا احترام اور زیادہ ہے اور جس طرح حالت حیات میں وہ قابل احترام ہے اس طرح مرنے کے بعداس کی میت بھی قابل احترام رہتی ہے اور اگر میت مسلمان عورت کی ہو تو پردے اورستر کے پہلو سے اس کا احترام اور بڑھ جاتا ہے ،چنانچہ مرنے کے بعد اس کا شوہر بھی اس کے برہنہ جسم کو ہاتھ نہیں لگاسکتا۔اب ذرا غور کیجیے کہ اسلام نے مسلمان میت کو کس قدر بلنددرجہ و مرتبہ اور قابل رشک احترام ومقام بخشا ہے اور پوسٹ مارٹم کے ذریعے برہنہ لاشوں کی چیرپھاڑ کرکے کس قدر اس کی بے حرمتی کی جاتی ہے؟ اگر لاش عورت کی ہو تو اس کی بے حرمتی اور زیادہ سنگینی اختیار کرجاتی ہے۔عورت کی برہنہ میت توغیر محرم مرد کے ہاتھوں میں جانا تو درکنار اس کی نظر کے نیچے بھی نہیں جاسکتی جب کہ غیر محرم مرد بلااستثناء مردوں اور عورتوں کا پوسٹ مارٹم کرتے رہتے ہیں۔زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ یہ سب کسی شرعی ضرورت کے بغیر کیا جاتا ہے،اگر واقعۃ کوئی شرعی ضرورت ہو مثلا کسی دوسرے زندہ انسان کی جان یا مال ضائع ہونے سے بچانے کے لیے پوسٹ مارٹم ناگزیر ہو تو اس کی اجازت ہوسکتی ہے مگر اس میں بھی شرعی احکامات جیسے ستر اور احترام میت وغیرہ کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

ب۔عورت کسی مرد ڈاکٹر سے چیک اپ کراسکتی ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں مسلم شریف کی حدیث سے رہنمائی ملتی ہے۔زوجہ رسول حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے نبی کریم ﷺ سے حجامہ (سینگی) لگوانے کی اجازت چاہی،آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوطیبہ رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کو سینگی لگوادے۔حدیث کے راوی حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابو طیبہ کو حکم فرمانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے رضاعی بھائی تھے یا نابالغ تھے۔اس حدیث سے معلوم ہو اکہ عورت کے علاج کے سلسلے میں بھی پردے کا خیال رکھنا ضروری ہے۔اگر معالج کے سامنے بے پردہ ہوکر آنے کی اجازت ہوتی تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو یہ وضاحت دینے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے محرم یا نابالغ تھے۔لہذا قانون شرعی یہ ہوا کہ عورت اپنا علاج کسی محرم معالج سے کرائے گی خصوصا جب کہ علاج کے دوران ستر والے اعضاء بھی کھولنے پڑے اور اگر محرم معالج دستیاب نہ ہواورناگزیر حالات ہوں تو غیر محرم سے بھی علاج کراسکتی ہے، مگر اس میں بھی حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جتنے بدن کا دیکھنا ضروری ہو معالج اتنے ہی بدن کو دیکھ سکتا ہے مثلا زبانی حال کہنا کافی ہو تو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ ہوگی اور نبض دیکھنا ضروری ہو تو بدن کھولنے کی اجازت نہ ہوگی۔