امام کی آمد سے قبل نمازیوں کا صفوں میں کھڑا ہوجانا



سوال:ہمارے محلے کی مسجد میں عموما جماعت وقت پر ہی کھڑی ہوجاتی ہے لیکن کبھی کبھار جب امام صاحب کو ایک آدھ منٹ کی تاخیر ہوجاتی ہے تو کچھ لوگ صفوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں، میں اور بہت سارے لوگ بیٹھے رہتے ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر یہ منظر سخت برا لگتا ہے آخر ہم لوگ دعوتوں میں بھی توگھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔اس سلسلے میں شرعی حکم کیا ہے؟(آصف علی،کراچی)

جواب:ترمذی شریف میں حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو یہ تاکید فرمائی تھی کہ’’ لاتقوموا حتی ترونی‘‘یعنی جب تک مجھے حجرے سے نکلتے ہوئے نہ دیکھو اس وقت تک کھڑے نہ ہوؤ۔اس حدیث سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ امام کے آنے سے پہلے نمازیوں کو کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔ترمذی شریف ہی کی ایک دوسری روایت میں زیادہ تفصیل کے ساتھ یہ مسئلہ بیان ہوا ہے چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے موذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ ٹھہرے رہتے تھے اور اقامت شروع نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ جب وہ نبی کریم ﷺ کو حجرہ مبارکہ سے نکلتا ہوا دیکھتے تو اقامت شروع کرتے۔ان حدیثوں کے پیش نظر فقہاء فرماتے ہیں کہ اقامت امام کے خروج کے بعد ہونی چاہیے اور امام کے خروج کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ مسجد سے باہر ہو تو صفوں میں آجائے اور اگر صف میں بیٹھا ہوا ہو تو مصلے کی

طرف چلنے کے لیے کھڑا ہوجائے،جب اس طرح خروج امام ہوجائے تو اس وقت اقامت شروع کردی جائے اور جب اقامت شروع ہوجائے تو اب نمازی بھی کھڑے ہوجائیں کیونکہ اقامت کا مطلب ہی کھڑا کرنا ہے اور جب کھڑا کیا جائے تو پھرکھڑا ہوجانا چاہیے۔اس تفصیل سے آپ کے سوال کا جواب ہوگیا کہ نمازی اس وقت کھڑے ہوں جب امام آجائے یا مصلے کی طرف بڑھنے لگے۔یہ جو لوگوں کی عادت ہے کہ وہ امام سے پہلے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں اور امام کو اتفاقا بھی تاخیر ہوجائے تو اس سے درگذر نہیں کرتے اور کھڑے ہوجاتے ہیں،درست نہیں۔جماعت کے لیے گھڑی بجتے ہی نہیں بلکہ اقامت کے حساب سے کھڑا ہونا چاہیے اور اقامت اس وقت ہونی چاہیے جب گزشتہ تفصیل کے مطابق خروج امام ہوجائے۔امام کو بھی حتی الامکان وقت کی پابندی کرنی چاہیے مگر نمازیوں کو بھی اس فضیلت کا خیال رکھنا چاہیے کہ جو وقت نماز کے انتظار میں گزرتا ہے وہ نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔