کمائی بھی فرض ہے تو پھرنماز کی وجہ سے کیوں چھوڑی جائے؟



سوال:۔کام یعنی نوکری بھی ایک عبادت اور فرض ہے۔کام کے دوران نماز کا وقت ہوجائے تو کون سا فرض یا عبادت کرنا لازمی ہے۔شرعی حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔ (فرحان احمد چنہ، مانجھی پور)

جواب:جس حدیث میں حلال روزی کمانے کو فرض قرار دیا گیا ہے اسی حدیث کے آخر ی ٹکڑے میں آپ کے سوال کا جواب موجود ہے۔ حدیث اس طرح ہے کہ:طلب کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضہ۔(السنن الکبری للبیہقی حدیث نمبر۱۲۰۳۰)یعنی حلال کی طلب ایک فریضہ کے بعد دوسرا فریضہ ہے۔اس حدیث میں حلال کمائی کو تو دوسرا فرض کہا گیا ہے مگر اس سے پہلے کس چیز کو فریضہ قرار دیا گیا ہے؟الجامع الصغیر کی شرح فیض القدیر میں علامہ مناوی ؒ نے لکھا ہے کہ پنجگانہ نمازیں حلال روزی کی جستجو سے مقدم فریضہ ہیں۔لہذا جب کام کے دوران نماز کا وقت ہوجائے تو پہلے نماز ادا کی جائے گی پھر دوسرے فریضے میں لگنا جائز ہوگا۔نماز جس طرح اولین اور مقدم فریضہ ہے اسی طرح بڑا اور اہم فریضہ بھی ہے،نماز سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں اور نماز نہ پڑھنے سے زیادہ بڑا کوئی گناہ نہیں، لہذا جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ اگر چہ کسی دوسرے فریضے میں مصروف ہو مگر نماز چھوڑنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ دوسرے فریضے سے اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ علاوہ ازیں نماز تو بذات خود عبادت ہے اور عبادت مقصد زندگی ہے جب کہ کام کاج اور نوکری وملازمت میں اپنی ذات کے لحاظ سے عبادت کا پہلو نہیں البتہ چونکہ حکم خداوندی ہے اس وجہ سے روزی کمانا بھی عبادت بن گیا ہے ورنہ نوکری بذات خود عبادت نہیں۔اب جو چیز بذات خود عبادت اور مقصد ہو اور جو چیز فی نفسہ عبادت نہ ہو جب ان دونوں میں ٹھکراؤ ہو تو عقل ودانش کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پہلے کو اختیار کیا جائے۔حاصل یہ ہے کہ نوکری فرض ضرور ہے مگر اس شخص پر جس نے پہلا اہم فریضہ ادا کرلیا ہو۔