ازدواجی الجھن اور متعلقہ فریقوں کی ذمہ داریاں



سوال:۔میری شادی 2012کو ہوئی،میں نے اپنی بیوی کو سمجھا دیا تھا کہ آج کے بعد تیرا رشتہ صرف آپ کے بھائیوں،بہنوں اور ماں باپ کے ساتھ ہے،اس کے علاوہ دیگر رشتے آپ کے لیے نامحرم ہیں۔اپنے خاص رشتے داروں کے خوشی اور غمی میں شرعی پردے کے ساتھ جاسکتی ہو۔میری اجازت سے صرف اپنی ماں باپ اور بہن بھائیوں کے گھر جاسکتی ہو۔میکے میں چند بے پردہ لڑکیاں آتی ہیں میں انہیں ان سے میل جول سے منع کرتا ہوں، وہ نہیں مانتی۔میری بیوی کے والدین اور اس کے بہن بھائی بھی میری کوئی بات نہیں مانتے۔ان کا کہنا ہے کہ ہماری بیٹی ہرجگہ جائے گی۔تین ماہ ہوگئے ہیں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ رہی ہے۔میرے والدین انہیں لینے گئے تو انہوں نے منع کردیا ۔اس کی والدہ کا کہنا ہے کہ شوہر کے ساتھ جائے گی۔میں اسلام آباد میں ملازمت کرتا ہوں ۔عید والے دن اپنی بیوی کو لینے گیا تو اس ماں نے منع کیا کہ جب تک میرا بیٹا (جو سعودی عرب میں ہے)نہیں آئے گا۔تمہارے ساتھ نہیں جائے گا۔آپ رہنمائی فرمائیں ان حالات میں میرے لیے کیا حکم ہے؟(ملک مختار احمد،اسلام آباد)

جواب: تینوں فریق حکمت سے کام لیں اور اپنی اپنی شرعی ذمہ داریوں کا احساس کریں تو گھر دوبارہ بس سکتا ہے۔بیوی کے والدین کو چاہیے کو وہ بیٹی کا گھر بسانا کی کوشش کریں اور اس کے اجاڑنے کا ذریعہ نہ بنیں،آج کل کی کچھ مائیں بیٹی کی طرفداری میں بسا اوقات اس کا گھر ہی تڑوابیٹھتی ہیں۔حدیث شریف میں ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے ،اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کا گھر بسنے نہ دینا گناہ کبیرہ ہے۔جب داماد ان کے مطالبے پر اپنی بیوی کو لینا گیا تو انہیں بیٹی کواس کے شوہر کے ساتھ بھیج دینا چاہیے تھا ،اس کے بعد یہ کہہ کر معاملے کو التوا میں ڈالنا کہ جب بیٹا سعودی سے واپس آئے گا تب بیٹی کو چھوڑیں گے،ناروا ہے۔بیوی کو بھی سوچنا چاہیے کہ شوہرنے اس سے کوئی غیر شرعی مطالبہ تو کیا نہیں تو پھر وہ ضد پکڑ کر کیوں میکے جابیٹھی ہے؟اگر وہ اسی طرح میکے بیٹھی رہیں گی تو مسلسل گناہ میں مبتلا رہیں گی ۔اس کے ساتھ آپ کو بھی حکمت اور بصیرت سے کام لیناچاہیے تھا۔بیوی کو پردے کی تلقین اور فاسق وفاجر قسم کی عورتیں کی صحبت سے روکنے کا آپ کو حق ضرور ہے لیکن حق کو اس تدبیر سے استعمال میں لانا چاہیے کہ اس سے کوئی بڑا فساد سارونما نہ ہو ۔آپ خود سوچئے کہ حکمت ودانش کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ کیا ہوا؟یہی کہ مقصدذرا بھر حاصل نہ ہوا اور ازدواجی زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔اب آپ دوبارہ ان کو لینے جائیں،ایک مرتبہ کے جانے کو کافی اور آخری نہ سمجھیں ،دور رہنے سے اور رابطہ نہ کرنے سے اس قسم کے مسائل بجائے حل ہونے کے اور زیادہ گھمبیر بن جاتے ہیں۔اگر بیوی آنے پر آمادہ نہ ہو یا والدین اسے چھوڑنے پر تیار نہ ہوں تو خاندان کے معزز اور خیرخواہ افراد کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے اور گھر کو آباد کرنے کی کوشش کریں۔