عورت کا ملازمت کے لیے نکلنا



سوال:۔کیا اسلام عورتوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں؟حالانکہ شریعت میں ہے کہ ان کا اصل گھر اور کام گھر میں ہے، جہاں انہیں ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں، اس بارے میں کیا حکم ہے؟(نعمت اللہ خان،پشاور)

جواب:عورت کو اگر مجبوری ہو مثلا کوئی کمانے والا نہ ہوتو اسے باپردہ ہوکر قریب ہی نوکری کی گنجائش ہے اور اگر مجبوری نہ ہوتو عورت کا کام کے لیے نکلنا جائز نہیں۔شریعت نے معاش کا بوجھ عورت کے ذمہ نہیں ڈالا ہے جو لوگ اس کے ناتواں کندھوں پر یہ بوجھ لاد دیتے ہیں وہ اس نحیف اور کمزور مخلوق پر ظلم کرتے ہیں۔آپ کا فرمانابھی درست ہے کہ عورت کا اصل منصب اندرون خانہ ذمہ داریوں کو نبھانا ہے اور وہ جب باہر نکلتی ہے تو اپنے ذمہ عائد فرائض اور واجبات کو ادا ہی نہیں کرسکتی ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیرون خانہ کاموں کا ذمہ دار حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا اوراندرون خانہ کی خدمت اور کام کاج حضرت فاطمۃ الزہراء کے سپرد فرمائی تھی ،یہی دربار رسالت کا فیصلہ ہے،مگر آج کی عورت نے محسن انسانیت کے اس خیر خواہانہ ،عادلانہ اور مزاج وفطرت سے ہم آہنگ فیصلے کو بھلادیا ہے اور مردوں کے فریب میں آکر باہر نکل پڑی ہے ۔