حج کے بعد اعمال میں سستی
سوال:۔ حج کرنے کے بعد زیادہ عبادات میں سستی، کاہلی یعنی ذکر، اذکار، صبح کے وقت نماز دیر سے پڑھنا، اور دِل میں وساوس یعنی حج سے پہلے دینی کاموں تبلیغ اور نیک کاموں میں دِلچسپی لیتا تھا لیکن اب اس کے برعکس ہے۔ آپ سے معلوم کرنا ہے کہ حج کرنے میں کوئی فرق تو نہیں ہے؟ کیا دوبارہ حج کے لیے جانا ضروری ہوگا؟(افتخار بنگش،چارسدہ)
جواب:حج کو دینی بصیرت کے حامل حضرات ایک کسوٹی سمجھتے ہیں جس سے اصل طبیعت معلوم ہوجاتی ہے جیسا کہ کسوٹی پر پرکھنے سے سونے کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے ۔کسوٹی کے ذریعے اگر سونے کا کھوٹ ظاہر ہوجائے تو اس میں قصور کسوٹی کا نہیں بلکہ سونے کا ہے ،اسی طرح اگر حج کے بعد نیک اعمال میں دل چسپی کم ہوگئی ہے تو اس میں قصور حج کا نہیں ۔حج کے عمل سے تو ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ فریضہ بھی ادا ہوگیا اور ہم اپنی طبیعت کی حقیقت اور نفس کی بغاوت سے بھی واقف ہوگئے ،یہ واقفیت ہمیں پیغام دیتی ہے کہ موت تک اپنے نفس پر بھروسہ اور اعتماد نہ کرو بلکہ اس سے بدگمان رہو اوراس کی اصلاح اور علاج کرو۔علاج یہی ہے کہ سستی کے بجائے چستی اختیار کی جائے ،نفس کو نیک اعمال کی طرف راغب کیا جائے خواہ بہلا پھسلا کر ہو یا زور وزبردستی سے کام لینا پڑے۔