کیا صرف مالدار لوگ حج کرکے جنت حاصل کرسکتے ہیں اور حاجیوں کی دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟



سوال:۔ حج کرکے صرف امیر آدمی ہی جنت خرید سکتا ہے کہ اس کے پاس حج پر جانے کے لیے مناسب رقم ہے اور وہ ہزاروں لاکھوں نمازوں کا ثواب حاصل کرسکتا ہے۔ جب کہ غریب محروم ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل صرف امیروں پر ہے۔آج کے زمانے میں کسی کا حج قبول نہیں ہورہا کیونکہ میدان عرفات میں لاکھوں فرزندان توحید اعدائے اسلام (خاص طور پر اسرائیل، امریکہ، روس) کے نابود ہونے کی دعا بڑے خشوع و خضوع سے کرتے ہیں اور ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ دنیا سے برائی ختم ہونے کی دعا کرتے ہیں، لیکن برائیاں بڑھ رہی ہیں۔ گویا ان دعاؤں کے نامقبول ہونے کی علامات ہیں ؟(ایم یاسین،کراچی)

جواب:آپ کے مسائل اور ان کاحل،اس سلسلے کے بانی مولانا یوسف لدھیانوی شہید تھے،ان سے اسی قسم کا ایک سوال ہوا تھا جو کچھ حضرت شہیدؒ نے جواب میں فرمایا تھا وہ بہت ہی جامع، مدلل اور دل نشین ہے ،اس لیے میں خود کچھ کہنے کے بجائے تبرک کے طور پر ان ہی کے کلام کو نقل کرنے پر اکتفا کرتاہوں۔حضرت فرماتے ہیں:صرف امیر آدمی ہی حج کرکے جنت کا مستحق نہیں،بلکہ غریب بھی نیک اعمال کرکے اس کامستحق ہوسکتا ہے۔حج صرف صاحبِ استطاعت لوگوں پر فرض ہے مگر جنت صرف حج کرنے پر نہیں ملتی،بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ غریب آدمی ان کے ذریعے جنت کماسکتا ہے،حدیث میں تو یہ آتا ہے کہ کہ فقراء ومساکین(مہاجرین)امراء سے آدھا دن پہلے جنت میں جائیں گے۔حج کس کا قبول ہوتا ہے اور کس کا نہیں؟یہ فیصلہ تو حج قبول کرنے والا ہی کرسکتا ہے،یہ کام میرے اور آپ کے کرنے کا نہیں،نہ ہم کسی کے بارے میں یہ کہنے کے مجاز ہیں کہ اس کی فلاں عبادت قبول ہوئی یا نہیں،البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس نے شرائط کی پابندی کے ساتھ حج کے ارکان صحیح طور پر ادا کیے، اس کا حج ہوگیا،رہا دعاؤں کا قبول ہونا یا نہ ہونا،یہ علامت حج کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی نہیں،بعض اوقات نیک آدمی کی دعا قبول نہیں ہوتی اور برے آدمی کی دعا قبول ہوجاتی ہے،اس کی حکمتیں اور مصلحتیں بھی اللہ تعالی ہی کو معلوم ہیں،اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کہ برائی اور شر کے غلبے کی وجہ سے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔حدیث میں آتا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ نیک آدمی عام لوگوں کے لیے دعا کرے گا ،حق تعالی شانہ فرمائیں گے کہ’’کہ تو اپنے لیے جوکچھ مانگتا چاہتا ہے مانگ،میں تجھ کو عطا کروں گا،لیکن عام لوگوں کے لیے نہیں،کیونکہ انہوں نے مجھے ناراض کرلیا ہے،اور یہ مضمون بھی احادیث میں آتا ہے کہ تم لوگ نیکی کا حکم کرو اور برائی کو روکو،ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالی تم کو عذابِ عام کی لپیٹ میں لے لیں،پھر تم دعائیں کروتو تمھاری دعائیں بھی نہ سنی جائیں۔اس وقت امت میں گناہوں کی کھلے بندوں اشاعت ہورہی ہے اور اللہ تعالی کے بہت کم بندے رہ گئے ہیں جوگناہوں پر روک ٹوک کرتے ہوں،اس لیے اگر اس زمانے میں نیک لوگوں کی دعائیں بھی امت کے حق میں قبول نہ ہوں تو اس میں قصور ان نیک لوگوں کا یا ان کی دعاؤں کا نہیں بلکہ ہماری شامت اعمال کا قصور ہے۔اللہ تعالی ہمیں معا ف فرمائیں۔