حاجی کو تحفہ دینا اور وصول کرنا



سوال:۔اکثر لوگ جب عمرہ یا حج کے لیے جاتے ہیں تو ان کے عزیز انہیں تحفے میں مٹھائی،، نقد روپے وغیرہ دیتے ہیں، اور جب یہ لوگ حج کرکے آتے ہیں تو تبرک کے نام سے ایک رسم ادا کرتے ہیں جس میں وہ کھجوریں، زمزم اور ان کے ساتھ دْوسری چیزیں رسماً بانٹتے ہیں، کیا یہ رواج درست ہے؟(سلطان شیخ،کراچی)

جواب: تحفہ وتحائف کے تبادلے تو بڑی فضیلت آئی ہے،اس سے باہمی محبت والفت میں اضافہ ہوتا ہے،تعلقات خوشگوار ہوجاتے ہیں ، نفرتیں و کدورتیں کم اور رنجشیں اور عداوتیں ختم ہوجاتی ہیں اورسب سے بڑھ کر یہ عمل بخل جیسے موذی مرض کے لیے دوا ئے شافی اورعلاج کافی ہے ،اس لیے جو لوگ اللہ تعالی کی رضااور اپنے مسلمان بھائی کے دل کو خوش کرنے یا اس کی مدد اور تعاون کے جذبے سے اسے کوئی ہدیہ یا تحفہ پیش کرتے ہیں وہ لائق تحسین ہیں اور ان کا عمل باعث فضیلت ہے ۔اس کے برعکس جو لوگ محض رسمِ دنیا نبھانے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کی غرض سے لینا دینا کرتے ہیں وہ ہدیے وتحفے کے ثمرات وبرکات سے بھی محروم رہتے ہیں اور ان کے عمل سے بجائے اس کے ان کے دل آپس میں صاف اور تعلق میں گرم جوشی پیدا ہو، الٹا ان کے دلوں میں نفرت اور تعلق میں کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔آج کل حاجیوں کو جاتے وقت دینے اورواپسی پر ان سے وصول کرنے کارواج سا بن گیا ہے ۔لوگ خواہی نخواہی حاجی کو کچھ دینا ضروری سمجھتے ہیں اور حاجی کا قیمتی وقت بھی وہاں تحائف کی خریداری کی نذر ہوجاتا ہے اور وہ سامان سے لدا پھدا واپس لوٹتا ہے۔اگر صرف صورت نہ ہوتی بلکہ حقیقت بھی ہوتی اورعمل سے روح سے خالی اور محض رسم کا پیٹ بھرنے کے لیے نہ ہوتا تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا مگر جب یہ ایک بے حقیقت اورپر مشقت رسم بن گئی ہے تو محض رسم کی لکیر پیٹنے اور شرماشرمی کی وجہ سے لینے دینے اوررسم کے جبر کی وجہ سے تحائف کا تبادلہ کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے ،اس لیے اب یہ رسم لائق ترک ہے۔