مکان کی تقسیم کا طریقہ
سوال:۔ہمارے والد مرحوم کے ترکے کا ایک مکان جس کی نچلی منزل میں ایک بھائی رہائش پذیر ہے۔ دوسری منزل کا ایک کمرہ میرے پاس، جب کہ دوسرا کمرہ دوسرے بھائی کے زیراستعمال ہے (جب کہ میں الگ اپنے ذاتی مکان میں رہائش پذیر ہوں)،تمام فیملی ممبران مجھ سے وہ کمرہ میری رضا مندی کے بغیر دوسرے بھائی کو دینا چاہتے ہیں،جس کے نتیجے میں پہلی اور دوسری منزل ایک بھائی کے زیر استعمال آ جائے گی اور نچلی منزل دو بھائیوں کے پاس ہو گی، میرا نقظہ نظر یہ ہے کہ ہر منزل بھائیوں کو بذریعہ قرعہ اندازی دی جائے، تاکہ ہر بھائی اپنا مکمل فلور استعمال کر سکے ۔ اس ضمن میں آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا میر ا کمرا نہ دینا درست عمل ہے( جب کہ میں اس مشترکہ گھر کا حصہ دار ہوں) میرے کمرہ نہ دینے سے اگر کوئی گھر کا فرد مجھ سے ناراض ہوتا ہے توکیا اس کا گناہ مجھ پر ہو گا۔ اس سال میں فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے جارہا ہوں ۔کیا میرے اس طرز عمل سے اس پرکوئی اثر پڑے گا۔اس گھر کی تقسیم کے حوالے سے میرے تجویز کردہ حل (بذریعہ قرعہ اندازی تینوں منزلوں کی تینوں بھائیوں میں تقسیم) کیا یہ شریعت کے مطابق ہے ؟(ایم رحمان ملک، کراچی)
جواب:آپ اپنے حصے کے مطالبے میں حق بجانب ہیں کیوں کہ مکان میں دیگر بھائیوں کی طرح آپ بھی برابر کے شریک ہیں۔اگر بھائیوں کے مطالبے پر آپ ایثار سے کام لیتے ہوئے ان کواپنا حصہ دے دیتے ہیں تو اجروفضیلت ہے اور اگر مطالبہ کرتے ہیں تو آپ کو اجازت ہے اور بھائیوں کی ناراضگی سے آپ پر کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی آپ کے حج پر کوئی اثر پڑے گا۔مکان کی تقسیم کے سلسلے میں باہمی رضامندی سے کوئی بھی فارمولہ اختیار کیا جاسکتا ہے مثلا ایک ایک منزل ہر ایک بھائی کو دی جاسکتی ہے اور فروخت کرکے رقم تقسیم بھی کی جاسکتی ہے اورکوئی ایک بھائی پورا مکان خریدبھی سکتاہے اور باری باری رہائش اختیاربھی کی جاسکتی ہے اور اسے کرایہ پر چڑھا کر آمدنی بھی تقسیم کی جاسکتی ہے اور اگر منزلوں کی قیمت میں فرق ہو تو ادنی درجے کی منزل کے ساتھ کوئی چیز ملا کر قیمت کا فرق برابر کیا جاسکتا ہے۔آپ کا تجویز کردہ فارمولہ بھی درست ہے کہ بذریعہ قرعہ منازل کی تقسیم کردی جائے۔بہر حال ورثاء باہمی رضامندی سے ان صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔