اوقاف کے متعلق مسلم حکم رانوں کا کردار
سوال:
اوقاف کی تشکیل میں مسلم حکمرانوں کا کیا کرداررہا ہے؟سوال اس پس منظر میں کررہا ہوں کہ دارالحکومت اسلام آباد کے لیے ایک ایسا قانون بنایا گیا ہے جس کے تحت وہاں کی موقوفہ جائیدادیں حکومت کی کنٹرول میں ہوں گی؟
جواب :
اسلامی تاریخ میں حکومت اورحکمرانو ں کا یہ کردار رہا ہے کہ انہوں نے اَموال اور جائیدادیں وقف کی ہیں اور ایسی پالیسیاں تشکیل دی ہیں جو وقف کے حق میں مفید ثابت ہوئی ہیں، چنانچہ سرورِکونین ،فخرِِموجودات جناب رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبوی کی جگہ خرید کر وقف کی،سات باغ بھی آپ ﷺ نے وقف فرمائے ہیں اوروفات کے بعد جو جائیدادیں آپ ﷺ کے زیر تصرف تھیں، وہ بھی صدقہ (وقف )قرارپائیں۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خیبر کی اراضی وقف کی اور نہرابی موسی، نہر معقل، نہر سعد وغیرہ کھدوائیں، عمارتیں تعمیر کیں، جن میں چھاونیاں ، مساجد ومدارس ، مہمان خانے، سڑکیں اور پل ، چوکیاں، سرائے وغیرہ شامل ہیں۔ خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اَوقاف کی ایک طویل فہرست ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ینبع کی زمین وقف فرمائی۔
بعد کے سلاطین نے اس روایت کو برقرار رکھا، چنانچہ نظام الملک طوسی نے مدرسہ نظامیہ بغداد قائم کیا، پھر نیشابور، بلخ، اصفہان، ہرات اوربصرہ میں اس قسم کے ادارے قائم کیے اور ان کے مختلف شہروں میں اَوقاف قائم کیے۔سلطان صلاح الدین ایوبی کے اوقاف تو چپے چپے پر پھیلے ہوئے تھے،سلطان محمود غزنوی نے غزنی میں اور غوری نے اُچ بہاولپور میں اورفیروز شاہ نے دہلی میں مدارس قائم کیے۔
انگریز سیاح ہملٹن کا بیان ہے کہ اٹھارہویں صدی میں ٹھٹھہ میں چار سو مدارس تھے۔قلقشقندی مصری نے لکھا ہے محمد شاہ تغلق کے زمانے میں دہلی میں ہزار مدارس تھے۔ہارون رشید نے بغداد کا بیت الحکمت کتب خانہ، جب کہ ولید بن عبدالملک نے ہسپتال قائم کیے۔
وقف کے پہلوسےمسلمان حکمرانوں کی تاریخ سامنے لانے کا مقصد یہ ہے کہ اگرہمارے حکمراں خودوقف نہیں کرسکتے ہیں تو پہلے سے موجود اوقاف کو بھی برباد نہ کریں ۔ان سے بس اتنی گزارش ہے کہ :
قوت نیکی نہ داری بدی مکن
باقی موقوفہ اشیاء سے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ وقف کرنے والے نے جس مقصد کے لیے اور جن شرائط کے ساتھ وہ چیز وقف کی ہو، ان کی رعایت رکھنا ضروری ہے؛ لہٰذا جو جائیداد جس مقصد کے لیے اور جن شرائط کے ساتھ وقف کی گئی ہو، ان کی پاس داری بہرصورت ضروری ہوگی۔