وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے ریمارکس کے متعلق
سوال:۔وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس صاحب نے سود کے مقدمہ کے دوران جو ریمارکس دیے ہیں یقینااخبارات کےذریعے آپ اس سے باخبر ہوں گے۔میرامقصد سود کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق دریافت کرنا نہیں ہے کیونکہ وہ حرام ہے اورحرام ہی رہے گا،میں مذکورہ عدالت خصوصا جج صاحب کے متعلق آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں ۔سردار عالم فاروقی،کراچی
جواب:۔میں نے جب سے فاضل جج صاحب کے ریمارکس پڑھے ہیں اس وقت سے مسلسل برصغیر کی ایک عبقری شخصیت کے الفاظ میرے دل ودماغ میں گونج رہے ہیں۔آپ کو اپنے خیال میں شریک کرنے کے لیے ان کے چند جملے نقل کردیتا ہوں تاہم اس سے پہلےزیر سماعت مقدمہ کی مختصر سی تاریخ ذہن عرض کرناضروری سمجھتا ہوں ۔وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف تاریخی فیصلہ دیا۔حکومت چونکہ سود کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں تھی اس لیے فیصلے کے خلاف بالاعدالت میں اپیل کردی ،عدالت اپیل پر چونکہ کسی خاص مدت میں اپیل نمٹانے کی پابندی نہیں ہے اس لیے اس نے ایک طویل مدت تک اپیل کو زیرالتوارکھا اوربالآخر پھر وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا ۔وفاقی شرعی عدالت نے سود کی تعریف سے پھر اس مقدمے کی ابتداکردی ہے جس کامطلب ہےکہ حکومت اورعدالتیں مقدمے سے کھیل رہی ہیں اورمقدمہ اب اس مقام پر ہے جہاں سے شروع ہواتھا۔اس مختصر سی تاریخ سے حکومت کے خلوص اورعدالتوں کے انصاف کااندازہ ہوجاتا ہے۔اب مولانا ابوالکلام آزاد کے چند جملےگوش گزار کرنے اجازت چاہتا ہوں۔مولاناؒ نےعلی پورسنٹرل جیل کلکتہ میں بغاوت کے مقدمے میں اپنا تحریری بیان جمع کرایاتھا جس میں تاریخ عدالت کی بوالعجبیوں پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:" تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمراں طاقتوں نے آزادی اورحق کے مقابلے میں ہتھیاراٹھائے ہیں ،تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اوربے خطاہتھیارکاکام دیا ہے۔عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اوروہ انصاف اورناانصافی دونوں کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔۔۔۔تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدان جنگ کے بعدعدالت کے ایوانوں میں ہی ہوئی ہیں۔۔۔عدالت کی ناانصافیوں کی فہرست بڑی ہی طویل ہے۔تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہوسکی ہے۔(بیسویں صدی میں ہندوستان کی ملی تحریکیں،ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہان پوری،ط:قندیل ،طبع اول،2009،پورب اکادمی،1/580